ناقص طہر کسے کہتے ہیں؟

ناقص طُہر کی وضاحت

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ناقص طہر سے کیا مراد ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ناقص طہر سے مراد وہ طہر ہے کہ جس میں صحیح طہر کی شرائط میں سے کوئی ایک بھی شرط مفقود ہو اور صحیح طہر کی شرائط یہ ہیں:

1۔ یہ طہر کم از کم پندرہ دن کا ہو۔

2۔ اس کے پندرہ ایام میں ابتداءً یا انتہاءً، اسی طرح درمیان کے ایام میں سے کوئی بھی دن خون والا نہ ہو۔

3۔ یہ طہر دو صحیح خونوں کے درمیان واقع ہو۔

نیز نفاس کے چالیس دنوں میں کچھ دن خون آیا اور پھر پندرہ دن یا اس سے زائددن ایسے گزرے کہ جن میں خون نہیں آیا، مگر اس کے بعدچالیس دن کے اندر اندر ہی دوبارہ خون آگیا، تو درمیان میں جو طہر آیا وہ سارا طہر فاسد ہوگا۔

منہل الواردین میں ہے

”(و الطھر الصحیح ما لا یکون اقل من خمسۃ عشر یوما) بان یکون خمسۃ عشر فاکثر لان ما دون ذلک طھر فاسد (و لا یشوبہ) ای یخالطہ (دم) اصلا لا فی اولہ و لا فی وسطہ و لا فی آخرہ (و یکون بین الدمین الصحیحین) احتراز عما یکون بین الاستحاضتین او بین حیض و استحاضۃ او بین نفاس و استحاضۃ او بین طرفی نفاس واحد، ملتقطاً“

ترجمہ: صحیح طہر وہ ہوتا ہے جو پندرہ دن سے کم نہ ہو، بایں صورت کہ پندرہ دن ہو یا اس سے زیادہ، کیونکہ اس سے کم کا طہر، فاسد کہلاتا ہے، اور اس طہر میں خون کا اصلاً اختلاط نہ ہو، نہ شروع میں نہ درمیان میں نہ آخر میں، اور وہ دو صحیح خونوں کے درمیان ہو، یہ احتراز ہے اس طہر سے جو دو استحاضوں کے درمیان ہو یا حیض و استحاضہ کے درمیان ہو یا نفاس و استحاضہ کے درمیان ہو یا ایک ہی نفاس کے دو طرفہ خون کے درمیان ہو۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین (رسالہ منھل الواردین)، ص 75، مطبوعہ کوئٹہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3889

تاریخ اجراء: 05 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ /02 جون 2025 ء