
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
عورت کے ہاں بچے کی ولادت عشاء کے وقت میں ہوئی، نفاس کا خون 40 دن سے پہلے نہ رکنے کی صورت میں کیا ولادت والا دن 1 دن شمار کیا جائے گا؟ اور اس کے بعد 39 دن شمار کرکے اگلے دن کی فجر ادا کی جائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جس وقت ولادت ہوئی ہے اس وقت سے 24 گھنٹے کا ایک دن شمار کیا جائے گا، مثلا ولادت رات 8 بجے ہوئی ہےتو اگلے دن 8 بجے ایک دن ہوگا، یونہی 24 گھنٹوں کے مزید دن شمار کئے جائیں گے۔
اس طرح جب چالیس دن پورے ہوجائیں اور خون نہ رکے تو عورت نہا کر نمازیں شروع کردے، پہلے کی عادت اگر چالیس دن تھی یا پہلا ہی بچہ ہے تو نمازوں کی قضا کی حاجت نہیں، لیکن اگر پہلے بھی بچہ ہوچکا ہے اور پچھلی بار خون مثلاً 35 دن آیا تھا تو اب یہ عورت پانچ دن کی نمازوں کی قضا بھی کرے گی۔
بہار شریعت میں ہے: ”نِفاس میں کمی کی جانب کوئی مدت مقرر نہیں، نصف سے زِیادہ بچہ نکلنے کے بعد ایک آن بھی خون آیا تو وہ نِفاس ہے اور زِیادہ سے زِیادہ اس کا زمانہ چالیس ۴۰ دن رات ہے اور نِفاس کی مدت کا شمار اس وقت سے ہو گا کہ آدھے سے زِیادہ بچہ نکل آیا اور اس بیان میں جہاں بچہ ہونے کا لفظ آئے گا اس کا مطلب آدھے سے زِیادہ باہر آجانا ہے۔ کسی کو چالیس ۴۰ دن سے زِیادہ خون آیا تو اگر اس کے پہلی باربچہ پیدا ہوا ہے یا یہ یاد نہیں کہ اس سے پہلے بچہ پیدا ہونے میں کتنے دن خون آیا تھا، تو چالیس ۴۰ دن رات نِفاس ہے باقی اِستحاضہ اور جو پہلی عادت معلوم ہو تو عادت کے دنوں تک نِفاس ہے اور جتنا زِیادہ ہے وہ اِستحاضہ، جیسے عادت تیس ۳۰ دن کی تھی اس بار پینتالیس ۴۵ دن آیا تو تیس ۳۰ دن نِفاس کے ہیں اور پندرہ ۱۵ اِستحاضہ کے۔“ (بہا ر شریعت، جلد 1، صفحہ 377، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مزید اسی میں ہے: ”حَیض کی مدت کم سے کم تین دن تین راتیں یعنی پورے ۷۲ گھنٹے، ایک منٹ بھی اگر کم ہے تو حَیض نہیں اور زِیادہ سے زِیادہ دس دن دس راتیں ہیں۔ ۷۲ گھنٹے سے ذرا بھی پہلے ختم ہو جائے تو حَیض نہیں بلکہ اِستحاضہ ہے ہاں اگر کرن چمکی تھی کہ شروع ہوا اور تین دن تین راتیں پوری ہو کر کرن چمکنے ہی کے وقت ختم ہوا تو حَیض ہے اگرچہ دن بڑھنے کے زمانہ میں طلوع روز بروز پہلے اور غروب بعد کو ہوتا رہے گا اور دن چھوٹے ہونے کے زمانہ میں آفتاب کا نکلنا بعد کو اور ڈوبنا پہلے ہوتا رہے گا جس کی وجہ سے ان تین دن رات کی مقدار ۷۲ گھنٹے ہونا ضرور نہیں مگر عین طلوع سے طلوع اور غروب سے غروب تک ضرور ایک دن رات ہے ان کے ماسوا اگر اَور کسی وقت شروع ہوا تو وہی ۲۴ گھنٹے پورے کاایک دن رات لیا جائے گا، مثلاً آج صبح کو ٹھیک نو بجے شروع ہوا اور اس وقت پورا پہر دن چڑھا تھا تو کل ٹھیک نو بجے ایک دن رات ہو گا اگرچہ ابھی پورا پہر بھر دن نہ آیا، جب کہ آج کا طلوع کل کے طلوع سے بعد ہو، یا پہر بھر سے زِیادہ دن آگیا ہو جب کہ آج کا طلوع کل کے طلوع سے پہلے ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 1، صفحہ 372، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2155
تاریخ اجراء: 02 رجب المرجب 1446ھ / 03 جنوری 2025ء