
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا شوہر کے سگے چاچو اور ماموں بیوی کے لیے محرم ہوتےہیں یا نامحرم؟ ان سے پردے کا کیا حکم شرعی ہے؟
سائل:حافظ عبد الصمد (ماڑی کنجور، اٹک)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شرعی طور پر شوہر کے اصول(باپ دادا) بیوی کے لیے مَحرم ہوتے ہیں، جبکہ چچا اور ماموں شوہر کے اصول میں داخل نہیں، لہٰذا یہ عورت کے لیے محرم نہیں، ان سے پردہ کرنا عورت پر لازم ہے، بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور فقہائے کرام رَحِمَھُمُ اللہُ کے ارشادات کے مطابق عورت کو اجنبی نامحرم کے مقابلے میں ایسے نامحرم رشتہ دار سے پردہ کرنے کی اور بھی زیادہ تاکید ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”إياكم والدخول على النساء، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله! أفرأيت الحمو؟ قال: الحمو الموت“
ترجمہ:عورتوں کے پاس جانے سے بچو!تو انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم!حمو کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: حمو تو موت ہے۔ (صحیح البخاری، ج 7، ص 37، حدیث 5232، دار طوق النجاۃ، بیروت)
ذکر کردہ حدیث پاک کے تحت محدث حنفیہ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”قال النووي: المراد من الحمو في الحديث أقارب الزوج غير آبائه و أبنائه لأنهم محارم للزوجة يجوز لهم الخلوة بها، و لا يوصفون بالموت. قال: و إنما المراد: الأخ و ابن الأخ و العم و ابن العم و ابن الأخت و نحوهم ممن يحل لها تزوجه لو لم تكن متزوجة“
ترجمہ: امام نووی نے فرمایا:حدیث پاک میں "حمو" سے، شوہر کے آباء و اجداد اور بیٹوں کے علاوہ قریبی رشتے دار مراد ہیں؛ کیونکہ یہ (آباء و اجداد اور بیٹے ) تو بیوی کے محرم ہیں، ان سے تنہائی جائز ہے، ان کوموت سے تعبیرنہیں کیا جاسکتا۔ فرمایا یہاں حموسے شوہر کا بھائی،شوہر کے بھائی کا بیٹا، شوہر کا چچا، شوہر کے چچا کا بیٹا، شوہر کی بہن کا بیٹا وغیرہ وغیرہ وہی افراد مراد ہیں جن سے اس کا نکاح حلال ہے جبکہ یہ شادی شدہ نہ ہوتی۔ (عمدۃ القاری، کتاب النکاح، ج 20، ص 213، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ذکر کردہ حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: ”بھاوج کا دَیْوَر سےبے پردہ ہونا موت کی طرح باعث ِ ہلاکت ہے۔ یہاں مرقات نے فرمایا کہ "حَمْو" سے مراد صرف دیور یعنی خاوند کا بھائی ہی نہیں، بلکہ خاوند کے تمام وہ قرابت دار مراد ہیں جن سے نکاح درست ہے، جیسے خاوند کا چچا، ماموں، پھوپھا وغیرہ۔ اسی طرح بیوی کی بہن یعنی سالی اور اس کی بھتیجی، بھانجی وغیرہ سب کا یہ ہی حکم ہے۔ خیال رہے کہ دیور کو موت اس لئے فرمایا کہ عادۃً بھاوج دیور سے پردہ نہیں کرتیں، بلکہ اس سے دل لگی، مذاق بھی کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اجنبیہ غیر محرم سے مذاق دل لگی کس قدر فتنہ کا باعث ہے۔ اب بھی زیادہ فتنہ دیور، بھاوج اور سالی، بہنوئی میں دیکھے جاتے ہیں۔“ (مرآۃ المناجیح، ج 5، ص 14، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
شوہر کے آباءو اجداد ہی عورت کے سسرالی محرم رشتہ دار ہوتے ہیں۔ جیسا کہ النتف فی الفتاوٰی میں مذکور ہے:
”و أما الصهر فهم أربعة اصناف أحدهم ابو الزوج و الجدود من قبل ابويه و ان علوا يحرمون على المرأة و تحرم هي عليهم دخل بها أو لم يدخل بها“
ترجمہ: بہر حال محرم سسرالی رشتہ داروں کی چار اقسام ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم شوہر کا باپ اور شوہر کےوالدین کی طرف سےآباء و اجداد اوپر تک سب عورت کے محرم ہوتے ہیں اور عورت ان پر حرام ہے، خواہ شوہر نے اس عورت سے دخول کیا ہو یا دخول نہ کیا ہو۔ (النتف فی الفتاوٰی، ج 01، ص 254، دار الفرقان، بیروت لبنان)
اجنبی کے مقابلے میں نامحرم رشتہ داروں سے پردے کی تاکید بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتےہیں: ”جیٹھ، دیور، پھپا، خالو، چچازاد، ماموں زاد پھپی زاد، خالہ زاد بھائی سب لوگ عورت کے لئے محض اجنبی ہیں، بلکہ ان کاضرر نرے بیگانے شخص کے ضرر سے زائد ہے کہ محض غیر آدمی گھر میں آتے ہوئے ڈرے گا، اور یہ آپس کے میل جول کے باعث خوف نہیں رکھتے۔ عورت نرے اجنبی شخص سے دفعۃ میل نہیں کھا سکتی، اور ان سے لحاظ ٹوٹا ہوتا ہے۔ لہذا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر عورتوں کے پاس جانے کو منع فرمایا، ایک صحابی انصاری نے عرض کی: یا رسول اللہ ! جیٹھ دیور کے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا:
الحموا الموت، رواہ احمد والبخاری عن عقبۃ بن عامر رضی اﷲ تعالی عنہ
(جیٹھ دیور تو موت ہیں۔)“ (فتاوی رضویہ، ج 22، ص 217، رضافاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتویٰ نمبر: JTL-2308
تاریخ اجراء: 01 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ /29 مئی 2025 ء