ڈھائی دن خون آنے کی صورت میں حیض شمار ہوگا؟

ہر مہینے صرف ڈھائی دن خون آتا ہو تو کیا ایساخون حیض ہے یااستحاضہ؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک خاتون جنہیں ہر مہینے حیض کے دنوں میں صرف ڈھائی دن تک خون جاری رہتا ہے، اور اس کے بعد پورا مہینہ خون نہیں آتا، تو کیا ان کا یہ خون حیض میں شمار ہوگا یا استحاضہ میں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مذکورہ بالاصورت میں ہر مہینےصرف ڈھائی دن تک آنے والاخون، استحاضہ شمار ہوگا، کیونکہ حیض کی کم سے کم مدت تین دن، تین راتیں اور زیادہ سے زیادہ دس دن، دس راتیں ہے، اور جو خون تین دن، تین راتیں پوری ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے اور اس کے بعدکم ازکم پندرہ دن، پندرہ راتوں تک دوبارہ نہ آئے، تو وہ حیض شمار نہیں ہوتا بلکہ استحاضہ شمار ہوتا ہے۔

ذخر المتأھلین میں ہے

الدماء الفاسدۃ المسماۃ بالاستحاضۃ سبعۃ الاول ما تراہ الصغیرۃ اعنی من لم یتم لہ۔۔ تسع سنین۔۔ و الخامس ما نقص من الثلاثۃ فی مدۃ الحیض

ترجمہ: فاسدخون، جن کواستحاضہ کہا جاتا ہے،وہ سات ہیں، ان میں سے پہلاوہ ہے جسے نابالغہ بچی دیکھے یعنی وہ بچی کہ جوابھی نوسال کی عمرکی نہیں ہوئی، اور پانچواں وہ جومدت حیض میں تین دن سے کم ہو۔ (رسائل ابن عابدین، ذخر المتأھلین مع منھل الواردین، ص 98، مطبوعہ: کوئٹہ)

بہارِ شریعت میں ہے ”تین 3 دن رات سے کم خون آیا، پھر پندرہ دن تک پاک رہی، پھر تین دن رات سے کم آیا تو نہ پہلی مرتبہ کا حَیض ہے نہ یہ بلکہ دونوں اِستحاضہ ہیں۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ2، صفحہ 377، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

حیض کی مدت کے حوالے سے تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے

(و أقلہ ثلاثۃ ایام بلیالیھا) الثلاث۔۔۔ (و أکثرہ عشرۃ) بعشر لیال۔۔۔ (والناقص ) عن أقلہ (و الزائد) علی اکثرہ۔۔۔ (استحاضۃ)

 ترجمہ: اور حیض کی کم سے کم مدت تین دن ،تین راتیں ہے، اور زیادہ سے زیادہ دس دن دس راتیں ہیں، اور جو خون اپنی اقل مدت سے کم ہو اور جو اپنی اکثر مدت سے زیادہ ہو وہ استحاضہ ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 1، صفحہ 524، مطبوعہ: کوئٹہ)

بہار شریعت میں ہے ”حیض کی مدت کم سے کم تین دن تین راتیں یعنی پورے 72 گھنٹے، ایک منٹ بھی اگر کم ہے تو حیض نہیں اور زِیادہ سے زِیادہ دس دن دس راتیں ہیں۔۔۔ 72 گھنٹے سے ذرا بھی پہلے ختم ہو جائے تو حیض نہیں بلکہ اِستحاضہ ہے۔ ہاں اگر کرن چمکی تھی کہ شروع ہوا اور تین دن تین راتیں پوری ہو کر کرن چمکنے ہی کے وقت ختم ہوا تو حیض ہے اگرچہ دن بڑھنے کے زمانہ میں طلوع روز بروز پہلے اور غروب بعد کو ہوتا رہے گا اور دن چھوٹے ہونے کے زمانہ میں آفتاب کا نکلنا بعد کو اور ڈوبنا پہلے ہوتا رہے گا جس کی وجہ سے ان تین دن رات کی مقدار 72 گھنٹے ہونا ضرور نہیں مگر عین طلوع سے طلوع اور غروب سے غروب تک ضرور ایک دن رات ہے ۔ان کے ماسوا اگر اور کسی وقت شروع ہوا تو وہی 24 گھنٹے پورے کاایک دن رات لیا جائے گا۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ2، صفحہ 372، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

طہرکے فاصل ہونے نہ ہونے کے متعلق البحرالرائق میں ہے

الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان أقل من خمسة عشر يوما لايصير فاصلا بل يجعل كالدم المتوالي،۔۔۔۔و إن كان خمسة عشر يوما فصاعدا يكون فاصلا

 ترجمہ: دوخونوں کے درمیان آنے والاطہرجب پندرہ دن سے کم ہوتووہ فاصل نہیں بنتا بلکہ اسے مسلسل آنے والے خون کی طرح قرار دیا جاتا ہے، اور اگر پندرہ دن یا اس سےزیادہ پر آئے تووہ فاصل ہوگا۔ (البحر الرائق، باب الحیض، ج 01، ص 216،دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4377

تاریخ اجراء: 07 جمادی الاولٰی 1447ھ / 30 اکتوبر 2025ء