
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0438
تاریخ اجراء:12 ربیع الثانی 1446ھ/ 16 اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ اگر کوئی عورت عمرے پر جا رہی ہو اور ان ہی دنوں میں اس کے ایام مخصوصہ شروع ہو جائیں تو وہ احرام باندھ کر میقات کراس کرے گی یا بغیر احرام کے گزرجائے اور جب ایام ختم ہوجائیں پھر احرام باندھے؟ اور اگر کوئی نابالغ بچہ میقات کراس کرے تو وہ بھی احرام باندھ کر کراس کرے گا یا بغیر احرام کے بھی گزر سکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مخصوص ایام میں بھی احرام کی نیت کی جاسکتی ہے، لہذاحائضہ عورت کے لئے بھی میقات سے گزرتے ہوئے احرام کی نیت لازم ہے، البتہ طواف کے لئےپاک ہونے کا انتظار کرے گی، جب پاک ہوجائے، تو غسل کرنے کےبعد اب طواف کرے گی اور اگر ماہواری کی وجہ سےاحرام کے بغیر میقات سے گزرجائے تو گنہگار ہوگی اور ایک دَم لازم ہوگا، نیز میقات پر واپس جاکر حج یا عمرے کا احرام باندھنا بھی لازم ہوگا، اگر واپس جاکر احرام باندھ لے تو دم ساقط ہوجائے گا، البتہ جان بوجھ کر میقات سے بغیر احرام گزرنے کا گناہ باقی رہے گا، جس سے توبہ بہر حال ضروری ہے۔
باقی نابالغ کے لئےمیقات سے گزرتے ہوئے احرام باندھنا ضروری نہیں، البتہ سمجھدار نابالغ بچے کو اس کی تعلیم کرنی چاہئے۔
عورت حالت حیض میں بھی احرام کی نیت کرسکتی ہے البتہ طواف نہیں کرسکتی، چنانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا: ”ان النفساء والحائض تغتسل وتحرم وتقضی المناسك كلها غير انها لا تطوف بالبيت حتی تطھر“ نفاس اور حیض والی عورت (نظافت کے لئے) غسل کر کے احرام باندھےاور سوائے طوافِ بیت اللہ کے باقی تمام مناسک ادا کرے، یہاں تک کہ پاک ہو جائے۔(سنن الترمذی، رقم 945، ج 3، ص 273، مطبوعہ مصر)
ہدایہ میں ہے: ”و إذا حاضت المرأة عند الإحرام اغتسلت وأحرمت غير أنها لا تطوف بالبيت حتى تطهر“ احرام باندھنے کے وقت عورت کو حیض آجائے تو وہ غسل کرکے احرام باندھ لےمگر بیت اللہ کا طواف نہ کرے یہاں تک کہ پاک ہو جائے۔(الھدایۃ ملتقطاً، ج 1، ص 156، دار احياء التراث العربي، بيروت)
میقات سےبغیر احرام گزرنے کے حوالے سےلباب المناسک میں ہے: ”(و حکمھا وجوب الاحرام منھا لاحد النسکین وتحریم تاخیرہ عنھا لمن اراد دخول مکۃ أو الحرم)“ میقات کا حکم یہ ہے کہ جو شخص مکہ یا حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کرے، اس کیلئےعمرہ یا حج میں سے کسی ایک کا احرام میقات سے باندھنا واجب ہے اور (جان بوجھ کر)احرام کو میقات سے مؤخر کرنا ،حرام ہے۔(لباب المناسک، ص 88، دار الکتب العلمیہ، بیروت(
لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے: ”(من جاوز وقتہ غیر محرم۔۔۔فعلیہ العود)أی فیجب علیہ الرجوع (الی وقت)أی الی میقات من المواقیت(وان لم یعد فعلیہ دم۔۔۔فان عاد)أی المتجاوز (سقط)أی الدم(ان لبی منہ)أی من المیقات علی فرض أنہ احرم بعدہ،والا فلا بد ان ینوی ویلبی لیصیر محرما حینئذ‘‘ جو شخص بغیر احرام کے میقات سے گزرجائے تو اس پرکسی بھی میقات پر واپس لوٹنا واجب ہے،اور اگر واپس نہ گیا تو اس پر دم لازم ہوگا، اور اگر واپس کسی میقات پر چلا گیا اور تلبیہ کہہ لی تو دم ساقط ہوگیایعنی جبکہ میقات سے گزرنے کے بعد (حرم میں ہی کسی جگہ) احرام کی نیت کرلی ہو اور اگر احرام کی نیت نہیں کی تو اب ضروری ہے کہ میقات پر جاکر نیت کرے اور تلبیہ بھی کہے تاکہ وہ اُس وقت مُحرم ہوجائے۔(لباب المناسک مع شرحہ، ص 94- 95، دار الکتب العلمیۃ، بیروت(
بہار شریعت میں ہے’’ میقات کو واپس جاکر احرام باندھ کر آیا تو دَم ساقط۔‘‘(بھار شریعت، ج 01، ص 1191، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نابالغ پرمیقات سے گزرتے ہوئے احرام باندھنا لازم نہیں کہ وہ وجوبِ اداء کا اہل نہیں،احکام الصغار میں ہے: ”لو جاوز المیقات بغیر احرام ثم احتلم بمکۃ واحرم من مکۃ اجزاہ عن حجۃ الاسلام ولم یکن علیہ لمجاوزۃ المیقات شیء لانہ لم یکن من اھل الاحرام عند المجاوزۃ“ نابالغ بغیر احرام کے میقات سے گزر گیا، پھر مکہ میں بالغ ہوا، اور وہیں سے حج کا احرام باندھ لیا، تو یہ فرض حج کے لئے کافی ہے، اور اس پر میقات سےبغیر احرام گزرنے کی وجہ سےکچھ بھی لازم نہیں، کیونکہ اس وقت وہ احرام کا اہل نہیں تھا۔(احکام الصغار، ص 34، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
بحر الرائق، فتاوی ہندیہ وغیرہ کتب فقہیہ میں ہے، و اللفظ للبحر: ”الكافر إذا دخل مكة بغير إحرام ثم أسلم فإنه لا يلزمه شيء كالصبي إذا جاوزه بغير إحرام ثم بلغ لعدم أهلية الوجوب“ کافر مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہوا، پھر مسلمان ہوگیا، تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں، جس طرح بچہ بغیر احرام کے میقات میں داخل ہو اور پھر بالغ ہوجائے، کیونکہ وجوب کا اہل نہیں۔(بحر الرائق، ج 03، ص 54، دار الكتاب الإسلامي)
بہار شریعت میں ہے: ”نابالغ بغیر احرام میقات سے گزرا پھر بالغ ہوگیا اور وہیں سے احرام باندھ لیا تو دَم لازم نہیں۔“(بھار شریعت، ج 01، ص 1192، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم