Bache ka Naam Afnan Rakhna

بچے کا نام "افنان" رکھنا

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3442

تاریخ اجراء:07رجب المرجب1446ھ/08جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا بچے کا نام"افنان"رکھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   افنان کا معنی ہے:" شاخیں،ٹہنیاں،حال وغیرہ" قرآن پاک میں ہے " ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍ" ترجمہ:شاخوں والی ہیں۔(سورہ رحمن، پ27،آیت:48)

   تاج العروس میں ہے" (أفنانٌ) جمع فَنَنٍ محرّكة هُوَ الْغُصْن"ترجمہ:افنان فنن کی جمع ہے  اس کا معنی ہے ٹہنی۔(تاج العروس، ج01، ص62، دارالھدایۃ بیروت)

   المنجدمیں ہے "الفن:قسم ۔حال ج افنان وفنون"(المنجد،ص657،اردوبازار،لاہور)

   معنی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا اگرچہ جائز ہے،بہتریہ ہے کہ بچے کانام صرف محمد رکھا جائے کہ حدیث پاک میں اس کی فضیلت وترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے ۔اور پکارنے کے لیے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام وصحابہ کرام، تابعین کرام و اولیاء عظام علیہم الرضوان کے ناموں میں سے کسی کے نام پر رکھا جائے کہ اس کی وجہ سےامیدہے کہ نام کی برکت اور ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی بچے کےشامل حال ہو گی اورحدیث پاک میں اچھوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے، اس روایت پربھی عمل ہوجائے گا۔

   الفردوس بماثور الخطاب میں ہے”تسموا بخياركم“ ترجمہ: اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

   بہار شریعت میں ہے  ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ ان کی برکت بچہ کے شامل حال ہو۔‘‘(بہار شریعت، جلد03، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

محمدنام رکھنے کی فضیلت:

   کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،ج 16،ص 422، مؤسسة الرسالة،بیروت)

   رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے”قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن“ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج 9،ص 688، کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم