
مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3520
تاریخ اجراء: 28رجب المرجب 1446ھ/29جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
Ifrahim افراہیم نام رکھ سکتے ہیں؟ صحیح نام کیا ہے ، افرائیم ، افراہیم ، افرایم۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
یہ حضرتِ یوسف علی نبیناوعلیہ الصلوۃ و السلام کے صاحبزادے اور حضرتِ ایوب علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام کے سسر کا نام ہےاور کتب میں اَفراہیم ، اَفرائیم ، اَفراثیم ، اَفراییم اور اَفرایم سب طرح موجود ہے، ان میں سے کوئی بھی نام رکھا جاسکتا ہے۔
البتہ!بہتر یہ ہے کہ اولاً بیٹے کا نام صرف”محمد“رکھیں ، کیونکہ حدیث پاک میں نام محمد رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام ”محمد“ رکھنے کی ہے۔اور پھر پکارنے کے لیے مذکورہ بالا نام رکھ لیجیے۔
محمد نام رکھنے کی فضیلت:
کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لی وتبركا باسمی كان هو ومولوده فی الجنة“ ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے ، تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،جلد 16،صفحہ 422، مطبوعہ مؤسسة الرسالة،بیروت)
رد المحتار میں مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت ہے:”قال السيوطی: هذا امثل حديث ورد فی هذا الباب واسناده حسن“ ترجمہ:علامہ جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی در المختار، جلد 6،صفحہ 417، مطبوعہ دار الفکر،بیروت)
نوٹ:ناموں کے بارے میں تفصیلی معلومات اور بچوں اور بچیوں کے اسلامی نام حاصل کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی جاری کردہ کتاب ’’نام رکھنے کے احکام‘‘کا مطالعہ کر لیجیے۔ نیچے دئیے گئے لنک سے آپ اس کتاب کو ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
https://www.dawateislami.net/bookslibrary/ur/naam-rakhnay-kay-ahkam
البدایہ والنہایہ میں ہے:”فولدت ليوسف عليه السلام رجلين، وهما افراثيم، ومنشا“ ترجمہ:حضرتِ زلیخا رضی اللہ عنہا نے حضرتِ یوسف علیہ السلام کے لیے دو لڑکے جنے اور وہ دونوں افراثیم اور منشا ہیں۔ (البدایۃ النھایۃ ، جلد 1 ، صفحہ 484 ، مطبوعہ دار ھجر)
البدایہ والنہایہ کے دوسرے نسخہ میں ”افرایم“ ہے۔(البدایۃ النھایۃ ، جلد 1 ، صفحہ 210 ، مطبوعہ مطبعۃ السعادۃ ، القاھرۃ)
تاج العروس میں ہے:”افراييم بن يُوسُفَ عليه السلام“(تاج العروس من جواھر القاموس ، جلد 22 ، صفحہ 332 ، مطبوعہ دار احیاء التراث)
الکامل فی التاریخ میں ہے:”أَفْرَاهِيمَ بْنِ يُوسُفَ“(الکامل فی التاریخ ، جلد 1 ، صفحہ 115 ، مطبوعہ دار الکتاب العربی ، بیروت )
تفسیر طبری میں ہے:”فولدت له رجلين:افرائيم بن يوسف، وميشا بن يوسف“ ترجمہ:اوپر گزر چکا۔(تفسیر الطبری ، جلد 16 ، صفحہ 151 ، مطبوعہ دار التربیۃ والتراث)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم