
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس بارے میں کہ لڑکی کا نام ”عارِفہ“ رکھنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
”عارفہ“ عارف کی مؤنث ہے، یوں اس کا معنی ہے: "جاننے والی، معرفت رکھنے والی۔" اِس معنی کے اعتبار سے لڑکی کا نام ”عارِفہ“ رکھنا جائز ہے، شرعاً اِس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ! بہتر یہ ہے کہ لڑکی کا نام نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات، بیٹیوں، صحابیات رضی اللہ عنہن اور نیک خواتین کے نام پر رکھا جائےکہ حدیث پاک میں اچھے لوگوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے، نیز امید ہے کہ اچھے نام کی برکت اور ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی بچی کےشاملِ حال ہو گی۔
فرہنگ آصفیہ میں ہے "عارف: اسم مذکر:۔ واقف۔ جاننے والا۔ خدا شناس۔ صاحب معرفت۔" (فرہنگ آصفیہ، جلد 3، صفحہ 270، مطبوعہ لاہور)
سنن ابو داؤد میں حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
أنکم تدعون یوم القیامۃ بأسمائکم و أسماء آبائکم، فأحسنوا أسمائکم
ترجمہ: قیامت کے دن تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کےناموں سے پکارے جاؤ گے، اس لئے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔ (سنن ابو داؤد، جلد 4، صفحہ 442، حدیث: 4948، مطبوعہ ہند)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے
تسموا بخياركم
ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔ ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں، جن کے کچھ معنی نہیں یا اون کے برے معنی ہیں، ایسے ناموں سے احتراز کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4056
تاریخ اجراء: 29 محرم الحرام 1447ھ / 25 جولائی 2025ء