اسماء نام رکھنے کا حکم؟

بچی کا نام "اسماء" رکھنا

دار الافتاء اہلسنت(دعوت اسلامی)

سوال

کیا ہم اپنی نومولود بیٹی کا نام "اسماء" رکھ سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی ہاں!آپ اپنی بیٹی کانام "اسماء" رکھ سکتے ہیں، بلکہ یہ بہترناموں میں سے ہے کہ یہ صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن کا نام ہے اورحدیث پاک میں اچھوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

"اسماء" نامی صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن کے متعلق الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں ہے

”أسماء بنت يزيد۔۔۔كان يقال لها خطيبة النساء.روت عن رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلّم عدة أحاديث۔۔۔ أسماء بنت سعيد۔۔۔لها ولأبيها صحبة۔۔۔أسماء بنت قرط۔۔۔ذكرها ابن سعد في المبايعات“

ترجمہ: (1) اسماء بنت یزید، انہیں عورتوں کی خطیب کہا جاتا تھا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کئی احادیث روایت کیں۔ (2) اسماء بنت سعید، یہ بھی صحابیہ ہیں اور ان کے والد بھی صحابی ہیں۔ (3) اسماء بنت قرط، ابن سعد نے انہیں بیعت کرنے والی صحابیات میں شمار کیا ہے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج 8، ص 21،11، 16، دار الكتب العلمية، بيروت)

حدیث پاک میں ہے

"تسموا بخياركم"

ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (مسند الفردوس للدیلمی، جلد 02، صفحہ 58، مطبوعہ: بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔ ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں، جن کے کچھ معنی نہیں یا اون کے برے معنی ہیں ، ایسے ناموں سے احتراز کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے ، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3793

تاریخ اجراء: 05 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 03 مئی 2025 ء