
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا بیٹی کا نام حور العین رکھا جاسکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حور العین نام رکھنا درست ہے کہ عربی لغت کے اعتبار سے لفظِ حور جمع کا صیغہ ہے اور اس کی واحد حوراء ہے یعنی ایک جنتی عورت کو حوراء کہا جاتا ہے اور زیادہ جنتی عورتوں کے لئے حور استعمال ہوتا ہے اور اردو لغت میں لفظِ حور بطورِ واحد بھی استعمال ہوتا ہے اور اس اعتبار سے حور العین کا مطلب بڑی آنکھوں والی خوبصورت عورت بنتا ہے، لہٰذا یہ نام رکھ سکتے ہیں۔
البتہ! بہتریہ ہے کہ بچی کا نام نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات، بیٹیوں، نانیوں، دادیوں، صحابیات رضی اللہ عنہن اور نیک خواتین کے نام پر رکھا جائے کہ اس کی وجہ سے نام کی برکت اور ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی شامل حال ہو گی۔
اور ناموں کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’نام رکھنے کے احکام‘‘ کا مطالعہ کیجئے اور یہ کتاب ڈاؤن لوڈ بھی کی جا سکتی ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-848
تاریخ اجراء: 26 شوال المکرم 1443ھ 28 / مئی 2022ء