حباء نام کا مطلب اور رکھنے کا حکم

بچی کا نام ”حباء فاطمہ“ رکھنا

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3700

تاریخ اجراء:23 رمضان المبارک 1446 ھ/ 24 مارچ 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیابچی کانام ” حباء فاطمہ “ رکھ سکتے ہیں؟ اور اس نام کا صحیح تلفظ کیا ہے؟ ہبہ، حبا یا حباء؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   حِباء (حاء کے زیر کے ساتھ )کا معنی عطیہ (تحفہ)ہے اور ہبہ كا معنی بھی عطیہ ہےاور فاطمہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کی پیاری شہزادی کا نام ہے۔ لہٰذا ”حِباء فاطمہ“  اور ”ہبہ فاطمہ“ دونوں اعتبار سے نام رکھنا درست ہے(نیز عربی میں حباء کے آخر میں ”ء“ بھی لکھا جاتا ہے اور اسی کو بعض اوقات ”حبا“ یعنی بغیر ”ء“ لکھ دیا جاتا ہے)۔ البتہ! بہتر یہ ہے کہ صرف فاطمہ نام رکھا جائے کہ اچھوں کے نام پرنام رکھنے کا حدیث مبارکہ میں حکم فرمایاگیاہےاوراس سے امید ہے کہ ان کی برکت بچی کے شامل حال رہے گی ۔

   الفردوس بماثور الخطاب میں ہے: ”تسموا بخياركم“ ترجمہ: اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

   ہبہ کے معنی کے متعلق ”المعجم الوسیط“ میں ہے: ”(الهبة) العطية الخالية من الأعواض و الأغراض“ ترجمہ: ہبہ کا معنی وہ عطیہ ہے جو عوض و اغراض سے خالی ہو۔ (المعجم الوسیط، جلد 2، صفحہ 1059، مطبوعہ دار الدعوۃ)

   حِباء کے معنی کے متعلق منجد میں ہے:”الحِباء و الحِبوۃ۔۔۔: عطیہ۔“ (المنجد، صفحہ 136، خزینہ علم و ادب)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم