
مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2337
تاریخ اجراء: 23جمادی الثانی1445 ھ/06جنوری2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حنین نام رکھنا جائز بلکہ بہتر ہے، اس لیے کہ یہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے اور حدیث پاک میں اچھوں کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔نیزاس کے ساتھ رضا ملانے میں بھی حرج نہیں۔
التاریخ الکبیر للبخاری میں ہے" حنين مولى العباس بن عبد المطلب الهاشمي، قال عبد الله بن يوسف عن حنين بن عبد الله بن حنين المدني - أخو إبراهيم بن عبد الله - عن ابنة أخيه عن خالها يقال له ابن الشاعر ان حنينا جده كان غلاما للنبي صلى الله عليه وسلم وكان حنين يخدم النبي صلى الله عليه وسلم ثم وهبه بعد لعمه العباس فأعتقه"ترجمہ:حنین ،حضرت عباس بن عبد المطلب الھاشمی کے آزاد کردہ غلام ہیں،عبد اللہ بن یوسف نے فرمایا:حنین بن عبد اللہ بن حنین المدنی –جوکہ ابراھیم بن عبد اللہ کے بھائی ہیں-سے مروی ہے وہ اپنی بھتیجی سے اور وہ اپنے ماموں سے روایت کرتی ہیں جنہیں ابن شاعر کہا جاتا تھا کہ حضرت حنین ، ان کے دادا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے اور حنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے تھے پھر بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ہبہ کردیا پھر انہوں نے انہیں آزاد کردیا۔ (التاریخ الکبیر للبخاری،جلد3،صفحہ104-105،دائرۃ المعارف العثمانیہ،حیدرآباد دکن)
الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں ہے "حنين۔۔۔۔مولى العباس بن عبد المطلب۔قال البخاريّ وأبو حاتم وابن حبّان: له صحبة"ترجمہ: حنین حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں ۔امام بخاری ،ابو حاتم اور ابن حبان رحمھم اللہ نے فرمایا کہ یہ صحابی ہیں۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،جلد2،صفحہ121،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے:”تسموا بخياركم “ ترجمہ: اچھوں کے نام پر نام رکھو ۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث2328، دار الكتب العلمية ، بيروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم