محمد رفیع نام رکھنا اور اس کا مطلب

محمد رفیع نام رکھنے کا حکم

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا بچے کا نام محمد رفیع رکھ سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

رفیع کا معنی ہے "عمدہ، نفیس، شریف و با عزت۔ وغیرہ" لہذا محمد رفیع نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ! بہتر یہ ہے کہ اولا بیٹے کا نام صرف "محمد" رکھیں کیونکہ حدیث پاک میں نام محمد رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام محمد رکھنے کی ہے۔ اور پھر پکارنے کے لیے "رفیع" نام رکھ لیں۔

نوٹ: اللہ تعالی کے ناموں میں سے بھی ایک نام رفیع ہے، لیکن یہ اللہ تعالی کے ساتھ خاص نہیں ہے، اذان کے بعد مانگی جانے والی دعا میں اس لیے بندوں کانام بھی رفیع رکھ سکتے ہیں۔

القاموس الوحید میں ہے ”الرفیع: اعلی، عمدہ، نفیس۔ (2) باریک (3) بلند (4) بلند مرتبہ، بلند مقام (5) شریف و با عزت“ (القاموس الوحید، صفحہ 650، مطبوعہ: لاہور )

کنز العمال میں ہے

”إن للہ تسعا وتسعين اسما من أحصاها كلها دخل الجنۃ۔۔۔ الرفیع“

یعنی: بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جو ان تمام کو یاد کر لے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (ان میں سے ایک نام) الرفیع (ہے)۔ (کنز العمال، جلد1، صفحہ449، 450، حدیث: 1938، مؤسسۃ الرسالۃ)

علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں:

”وقد تتبعت ما بقي من الأسماء مما ورد في القرآن بصيغة الاسم مما لم يذكر في رواية الترمذي وهي الرب الإله المحيط القدير الكافي الشاكر الشديد القائم الحاكم الفاطر الغافر القاهر المولى النصير الغالب الخالق الرفيع

ترجمہ: اور میں نے ان باقی ناموں کا تتبّع کیا ہے جو قرآنِ کریم میں اسم کے صیغے کے ساتھ وارد ہوئے ہیں جن کا ذکر امام ترمذی کی روایت میں نہیں آیا۔ اور وہ یہ ہیں: الرَّب، الإلٰه، المحيط، القدير، الكافي، الشاكر، الشديد، القائم، الحاكم، الفاطر، الغافر، القاهر، المولى، النصير، الغالب، الخالق، الرفيع۔" (فتح الباری، جلد11، صفحہ349، دار المعرفۃ، بیروت)

لفظ رفیع کا بندوں پر اطلاق:

کتاب الفتن لنعیم بن حماد میں ہے

”عن كثير بن مرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أشراط الساعة أن يملك من ليس أهلا أن يملك، ويرفع الوضيع، ويوضع الرفيع“

ترجمہ: اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا: قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ نااہل کو حکومت سونپی جائے گی اور کم تر کو بلند کیا جائے گا اور بلند مرتبہ کو پست کیا جائے گا۔ (کتاب الفتن، رقم الروایۃ 696، ج 1، ص 244، مطبوعہ: قاھرہ)

علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ "المطالب العالیۃبزوائد المسانید الثمانیۃ" میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا خطبہ ذکر کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا:

”أما بعد فإن هذا الفيء أفاءه الله عليكم الرفيع فيه والوضيع بمنزلة“

 ترجمہ: بعد ازاں: یہ فَیء جو اللہ نے تم پر لوٹایا ہے، اس میں رفیع (معزز) اور وضیع (کم تر) سب برابر کے درجے میں ہیں۔ (المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، ج 9، ص 526، دار العاصمة)

جو نام اللہ عزوجل کے ساتھ خاص نہیں ہیں، ان کےمتعلق درمختار میں ہے

”و جا ز التسمیۃ بعلی و رشید و غیرھما من الاسماء المشترکۃ و یراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اللہ تعالی“

ترجمہ: اسما ئے مشترکہ میں سے علی، رشید اور ان کے علاوہ نام رکھنا جائز ہے اور (ان اسماسے )جو معنی اللہ تعا لیٰ کے لیے مراد لیے جاتے ہیں ہمارے حق میں اس کے علاوہ معنی مراد لیے جائیں گے۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الحضر وا لاباحۃ، جلد9، صفحہ689 , 688، مطبوعہ: کوئٹہ)

محمد نام رکھنے کی فضیلت:

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

” من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“

ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)

رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے

”قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن“

 ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں ہے ”بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے  اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4536

تاریخ اجراء:21جمادی الثانی1447ھ/13دسمبر2025ء