
مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3770
تاریخ اجراء: 24 شوال المکرم 1446 ھ/23 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا محمد شیث نام رکھنا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بچے کا نام "محمدشیث" رکھنا جائز، بلکہ مستحسن اور اچھا ہے، کیونکہ شیث حضرت آدم علیہ الصلاۃ و السلام کےبیٹے کا نام ہے، جو اللہ کے نبی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انبیائے کرام کے ناموں پر نام رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے، نیز یہ نام معنی کے اعتبار سے بھی بہت اچھا ہے کہ اس کا معنی ہے ”اللہ کا تحفہ“۔ البتہ! اس میں بہتر یہ ہے کہ اولاً بیٹے کا نام صرف "محمد" رکھیں، کیونکہ حدیث پاک میں "محمد" نام رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام محمدرکھنے کی ہے، پھر پکارنے کے لیے "شیث" نام رکھ لیں۔
شیث حضرت آدم علیہ الصلاۃ و السلام کے بیٹے کا نام ہے اوراس کامعنی "اللہ کاتحفہ" ہے،جیساکہ ”البدایۃ و النھایہ“ میں ہے:
”ذكروفاة آدم و وصيته إلى ابنه شيث و معنى شيث هبة اللہ و سمياه بذلك لأنهما رزقاه بعد أن قتل هابيل“
ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام کی وفات اور بیٹے حضرت شیث علیہ السلام کو وصیت کرنے کا ذکر۔ شیث کا معنی اللہ کا تحفہ ہے، حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنھا نے اپنے بیٹے کا نام شیث اس لیے رکھا کہ اللہ کریم نے انہیں ہابیل کے قتل کے بعد یہ بیٹا عطا فرمایا۔ (البدایة و النھایة، ج 1، ص 230، دار هجر)
مفتیِ اہلِ سنت، شیخ القرآن ابو صالح مفتی محمد قاسم قادری مدظلہ العالی تحریرفرماتے ہیں: ”ایک روایت کے مطابق جب حضرت آدم علیہ السلام کی عمر مبارک 130 برس ہوئی تو ان کے ہاں ایک اور فرزند پیدا ہوا ۔ یہ شکل و صورت میں بالکل حضرت آدم علیہ السلام جیسے تھے اوران کی ولادت پر حضرت حوا رضی اللہ عنھا نے فرمایا: خدا نے مجھے ہابیل کے عوض ایک بیٹادیا ہے۔ آپ علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے ان کا نام شیث رکھا۔۔۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند حضرت شیث علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ (سیرت الانبیاء، صفحہ 145، مکتبۃ المدینہ)
سنن ابی داؤد میں ہے
” قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: تسموا بأسماء الأنبياء، وأحب الأسماء إلى الله عبد الله، و عبد الرحمن، و أصدقها حارث، و همام، و أقبحها حرب و مرة“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”انبیاء علیہم السلام کے ناموں پر نام رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام ’’عبداللہ‘‘ اور ’’عبد الرحمن‘‘ہیں۔ اور سب سے زیادہ سچے نام ’’حارث‘‘ اور ’’ہمام‘‘ ہیں۔ اور سب سے زیادہ برے نام ’’حرب‘‘ اور ’’مرہ‘‘ہیں۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 4950، ج 4، ص 287، المكتبة العصرية، بيروت)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "حدیث سے ثابت کہ محبوبان خداانبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والثناء کے اسمائے طیبہ پرنام رکھنا مستحب ہے جبکہ ان کے مخصوصات سے نہ ہو۔" (فتاوی رضویہ، ج 24، ص 685، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
محمدنام رکھنے کی فضیلت:
کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي و تبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة“
ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال، ج 16، ص 422، مؤسسة الرسالة، بیروت)
رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے
”قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب و إسناده حسن“
ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج 6، ص 417، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم