
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3752
تاریخ اجراء: 15 شوال المکرم 1446 ھ/14 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
محمد یوسف نام رکھنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
محمد یوسف نام رکھ سکتے ہیں اوریہ بہترناموں میں سے ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کے نبی حضرت سیدنایوسف علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کانام ہے اورحدیث پاک میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ناموں پرنام رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے۔ نیززیادہ بہتر یہ ہے کہ صرف محمد نام رکھا جائے کہ حدیث پاک میں اس کی فضیلت بیان ہوئے ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہانام محمدرکھنے کی ہے اورپھر پکارنے کے لئے محمدیوسف رکھ لیں۔
سنن ابی داؤد میں ہے
” قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: تسموا بأسماء الأنبياء“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے ناموں پر نام رکھو۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 4950، ج 4، ص 287، المكتبة العصرية، بيروت)
محمدنام رکھنے کی فضیلت:
کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي و تبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة“
ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، ج 16، ص 422، مؤسسة الرسالة، بیروت)
رد المحتار میں مذکورہ حدیث پاک کے تحت ہے
”قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب و إسناده حسن“
ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج 6، ص 417، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم