Pehle Shohar ki Olad ke sath Bator Walid Kis ka Naam Hoga?

عورت کے دوسرے نکاح پر پہلے شوہر کی اولاد کے ساتھ بطور والد کس کا نام ہوگا؟

مجیب:مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3405

تاریخ اجراء:17جمادی الاخریٰ1446ھ/20دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا سوال یہ ہے کہ   عورت کی دوسری شادی  کرنے کے بعد پہلی اولادکے ساتھ بطورِ والد پہلےشوہر کا نام رہے گا یا دوسرے کا نام جیسے ڈاکومینٹس وغیرہ میں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں، جس شخص کی حقیقی اولاد ہیں، اسی کا نام رہے گا۔ یعنی، پہلی والی اولاد کے ساتھ پہلے شوہر کا نام ہی بطورِ والد آئے گا۔ دوسرے شوہر کا نام بطورِ والد لکھنا، ناجائز و حرام ہوگا۔

   چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :”اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ- (۵) ترجمۂ کنز الایمان: انہیں  ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے۔(القرآن،پارہ21،سورۃ الاحزاب ،آیت05)

   اس آیت کے تحت تفسیر نور العرفان میں مفتی احمد یار خان نعیمی    رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:”یعنی لے پالکوں کے تمہیں باپ معلوم نہ ہو تب بھی انہیں مربی(پرورش کرنے والے ) کا بیٹا نہ کہو ۔مزید فرماتے ہیں: ممانعت کے بعد  اگر تم دیدہ نستہ(جان بوجھ کر)لے پالکوں کو ان  کے مربی  کابیٹا کہوں گے تو گنہگا رہونگے۔“(تفسیر نور العرفان،سورہ احزاب، آیت:05،ص667،نعیمی کتب خانہ گجرات)

   صحیح البخاری شریف میں ہے:”عن سعد رضی اللہ عنہ قال :سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول: من ادّعی الی غیر أبیہ وھو یعلم أنہ غیر أبیہ  فالجنۃ علیہ حرامترجمہ:حضرت سعد رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے،کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اس کا باپ کوئی اور ہے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو کسی غیر کی طرف منسوب کرے تو اس پرجنت حرام ہے۔(صحيح البخاری،کتاب الفرائض، باب: من ادعي الي غير ابيه،حدیث:6766،ص1076،دار الحضارۃ)

   شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ  اسی مضمون کی ایک حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جان بوجھ کر اپنے نسب کو بدلنا حرام وگناہ ہے۔۔۔۔نسب بدلنے کی دو صورتیں ہیں :ایک نفی یعنی اپنے باپ سے نسب کا انکار کرنا،دوسرے اثبات یعنی جو باپ نہیں اسے اپنا باپ بتانا ،دونوں حرام ہیں۔“(ملخصاً)(نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج04،ص 496،فرید بک سٹال ،لاہور)

   مفتی امجدعلی  اعظمی رحمۃ اللہ علیہ   فتاوی امجدیہ میں فرماتے ہیں: ”تبنی کرنا یعنی لڑکا گود لینا شرعاً منع نہیں،مگر وہ لڑکا اس (پالنے والے)کا لڑکا نہ ہوگا بلکہ اپنے باپ ہی کا کہلائیگا۔“(فتاوی امجدیہ،ج03،ص365،مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم