
مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3731
تاریخ اجراء: 17شوال المکرم 1446 ھ/16 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بچے کانام راحمین رکھنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
راحمین، راحم کی جمع ہے اورراحم کامعنی ہے "رحم کرنے والا" کبھی کسی خاص مقصدکے لیے ایک شخص کے لیے جمع کا لفظ واحد کے معنی میں بطور اسم استعمال کر لیا جاتا ہے۔ اور شرعی طور پر "راحمین یا راحم" نام رکھنا جائز ہے کہ ممنوع ہونے کی کوئی وجہ نہیں؛ کیونکہ نہ یہ ان اسماء میں سے ہے جو اللہ تعالی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کے ساتھ خاص ہوں، نہ یہ بے معنی ہے، نہ اس کے معنی برےو مذموم ہیں، نہ فخر وتکبر پر مشتمل ہے، نہ اس میں ممنوعہ تزکیہ اور خود ستائی ہے، نہ شریعت مطہرہ میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ لڑکے کا نام نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک ناموں، یا صحابہ کرام و اولیائے عظام کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھا جائے کہ حدیث پاک میں اچھوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی، اور امیدہے کہ ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی شامل حال ہو گی۔
حدیث مبارک میں ”راحمون“ کا اطلاق بندوں پر کیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ یہ نام اللہ پاک کے ساتھ خاص نہیں، سنن ترمذی میں ہے
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الراحمون يرحمهم الرحمن، ارحموا من في الأرض يرحمكم من في السماء"
ترجمہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ”رحم کرنے والوں پر رحمٰن (اللہ) رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔“ (سنن الترمذی، جلد 04، صفحہ 323، مؤسسۃ الرسالۃ)
اس حدیث کے تحت المنهل العذب المورود میں ہے
" والراحمون جمع راحم و هو يصدق بقليل الرحمة و كثيرها“
ترجمہ: الراحمون، راحم کی جمع ہے اورقلیل وکثیر رحمت والے ہر فرد پر صادق آتا ہے۔ (المنهل العذب المورود، جلد 08،صفحہ 277، مطبعة الاستقامة، القاهرة)
فیروز اللغات میں ہے "راحم: رحم کرنے والا۔" (فیروز اللغات، صفحہ 737، مطبوعہ لاہور)
النحو الوافي میں ہے
"جرى الاستعمال قديماً و حديثًا على تسمية فرد من الناس و غيرهم باسمٍ، لفظه مثنى و لكن معناه مفرد، بقصد بلاغي كالمدح، أو الذم، أو التلميح مثل: ’’حمدان‘‘ تثنية: ’’حمْد‘‘
ترجمہ: ہر نئے پرانے زمانے میں لوگوں میں ایک شخص کا نام بھی تثنیہ کے لفظ کے ذریعہ رکھنا مستعمل ہے، لیکن اس کا معنیٰ مفرد ہی ہوتا ہے، بلاغت کے پیشِ نظر جیسے مدح یا ذم یا تلمیح یعنی اشارے کے لیے جیسے’’حمد‘‘ کی تثنیہ ’’حمدان‘‘۔(النحو الوافي، الاعراب و البناء، المسئلۃ التاسع، جلد 01، صفحہ 125 - 126، دار المعارف)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”من ولد له ولد فليحسن اسمه“
ترجمہ: جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو تو وہ اس کا اچھا نام رکھے۔ (شعب الایمان، جلد 11، صفحہ 137، مکتبۃ الرشد، ریاض)
اس حدیث مبارک کی شرح بیان کرتے ہوئے مفتی احمدیارخان علیہ رحمۃالرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ”اچھے نام کا اثر نام والے پر پڑتا ہے، اچھا نام وہ ہے جو بے معنی نہ ہو جیسے بدھوا،تلوا وغیرہ اور فخر و تکبر نہ پایاجائے جیسے بادشاہ، شہنشاہ وغیرہ اور نہ برے معنی ہوں جیسے عاصی وغیرہ۔ بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام یا حضور علیہ السلام کے صحابہ عظام، اہلبیت اطہار کے ناموں پر نام رکھے جیسے ابراہیم و اسمعیل، عثمان، علی، حسین و حسن وغیرہ عورتوں کے نام آسیہ، فاطمہ، عائشہ وغیرہ اور جو اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے وہ انشاء اﷲ بخشا جائے گا۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 45، قادری پبلشرز)
حدیث پاک میں ہے:
”تسموا بخياركم“
ترجمہ: نیک ہستیوں کے نام پر نام رکھو۔(مسند الفردوس للدیلمی، جلد 02، صفحہ 58، مطبوعہ: بیروت)
مراۃ المناجیح میں ہے: ”بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام یا حضور علیہ السلام کے صحابہ عظام،اہلبیت اطہار کے ناموں پر نام رکھے جیسے ابراہیم و اسمعیل، عثمان، علی، حسین و حسن وغیرہ۔ عورتوں کے نام آسیہ، فاطمہ، عائشہ وغیرہ۔“ (مراۃ المناجیح، کتاب الآداب، جلد 05، صفحہ 45، قادری پبلشرز لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم