
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
وہ حدیث بتادیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا واسطہ دے کر توبہ کی۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی قبول توبہ بوسیلہ محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم والی حدیث پاک کو حاکم، بیہقی، طبرانی، آجری، ابو نعیم، ابن عساکر، کنز العمال وغیرہ نے بیان کیا ہے۔
کنز العمال کے الفاظ یوں ہیں:
لما اقترف آدم الخطيئة قال: يا رب! اسألك بحق محمد إلا غفرت لي، فقال الله تعالى: و كيف عرفت محمدا و لم أخلقه بعد، قال: يا رب! لأنك لما خلقتني بيدك و نفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا "لا إله إلا الله محمد رسول الله " فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك، فقال الله عز و جل: صدقت يا آدم! إنه لأحب الخلق إلي و إذا سألتني بحقه فقد غفرت لك، و لولا محمد ما خلقتك
ترجمہ:جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی، تو انہوں نے (بارگاہ الٰہی میں) عرض کیا: اےمیرے رب! میں تجھ سے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما، اس پر ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! جب تو نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ستونوں پر
لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ
لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہوسکتا ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے محبوب ہے۔ اس پر ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم تو نے سچ کہا ہے مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں، اب جبکہ تم نے ان کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف فرما دیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا۔ (کنز العمال، جلد 11، صفحہ 455، حدیث: 32138، مؤسسۃ الرسالۃ)
حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام نے نبی آخر الزمان محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کے وسیلہ سے دعا مانگی اور ان کی دعا قبول ہوئی۔ قرآن پاک میں ہے
(فَتَلَقَّی آَدَمُ مِنْ رَبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ اِنَّہُ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ)
ترجمہ کنز الایمان: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (القرآن، پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت: 37)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ روح البیان میں فرماتے ہیں:
و عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم ان آدم قال بحق محمد ان تغفر لی قال و کیف عرفت محمدا قال لما خلقتنی و نفخت فی الروح فتحت عینی فرأیت علی ساق العرش لا اللہ الا اللہ محمد رسول اللہ فعلمت انہ اکرم الخلق علیک حتی قرنت اسمہ باسمک فقال نعم وغفر لہ بشفاعتہ
یعنی: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے اللہ عز و جل کی بارگاہ میں دعا مانگی الہی تو حق محمد صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کے وسیلے سے مجھےمعاف فرما دے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا تو نے محمد صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کو کیسے جانا؟ عرض کی جب تو نے مجھے پیداکیا اور مجھ میں روح پھونکی۔ تو میں نے اپنی آنکھیں کھولی تومیں نے دیکھا پایہ عرش پر لکھا تھا
لا اللہ الا اللہ محمد رسول اللہ
تومیں نے جان لیا کہ محمدصلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم مخلوق میں تیرے سب سے زیادہ محبوب بندے ہیں اس لئے تو نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ہاں اور محمدصلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کے وسیلے سے بخش د یا گیا (یعنی تمہاری لغزش کو معاف کر دیا۔) (روح البیان، جلد 1، صفحہ 113، دار الفکر، بیروت)
امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام کی قبول توبہ بوسیلہ محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم والی حدیث پاک کو حاکم، بیہقی،طبرانی، آجری، ابو نعیم، ابن عساکر وغیرہ کتب حدیث سے نقل کر کے اس کی سند پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و قال صحیح الاسناد و اقرہ علیہ العلامۃ ابن امیر الحاج فی الحلیۃ و السبکی فی شفاء السقام اقول و الذی تحرر عندی انہ لاینزل عن درجۃ الحسن، و اللہ تعالٰی اعلم
یعنی: اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ روایت صحیح الاسناد ہے۔ علامہ ابن امیر الحاج نے حلیہ میں اورسبکی نے شفاء السقام میں اس کو برقرار رکھا۔ میں کہتا ہوں جو میرے ہاں ثابت ہے وہ یہ ہے کہ یہ روایت حسن کے درجہ سے نیچے نہیں ہے، اور اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔“ (حاشیہ فتاوٰی رضویہ، جلد 30، صفحہ 185، 186، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4085
تاریخ اجراء: 06 صفر المظفر 1447ھ / 01 اگست 2025ء