
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ جبریل امین علیہ السلام کا قول ہے ”اگر میں آگے بڑھا تو میرے پَر جل جائیں گے۔“ حالانکہ فرشتے نور سے بنے ہیں۔ تو کیا نور بھی جل سکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نور سے تخلیق ہونا، جلنے کے منافی نہیں، بلکہ جو مخلوق آگ سے بنی ہے یعنی جن، ان کا جہنم میں جل کر عذاب پانا خود قرآن پاک سے ثابت ہے، لہٰذا قادرِ مطلق کے لئے یہ سب ممکن ہے۔
جبریل امین علیہ السلام کا یہ قول اس طرح سے ہے ”اگر میں ایک پورےکے برابر بھی آگے بڑھا تو جل جاؤں گا۔“ یہ درج ذیل کتب میں ہے:
تفسیر کبیر للامام رازی، تفسیر روح البیان اور تفسیر نیشابوری میں ہے،
و النص للرازی: روي أن جبريل أخذ بركاب محمدصلی اللہ علیہ و سلم حتى أركبه على البراق ليلة المعراج۔۔۔ و لما وصل محمد صلی اللہ علیہ و سلم إلى بعض المقامات تخلف عنه جبريل و قال: لو دنوت أنملة لاحترقت
ترجمہ:مروی ہے کہ جبریل امین علیہ السلام نے معراج کی رات نبی کریم علیہ السلام کو براق پر بٹھایا اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری براق کی رکاب پکڑی ۔ ۔۔ اور جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بعض مقامات پر تشریف لے گئے تو جبریل امین پیچھے رہ گئے اور عرض کیا: اگر میں ایک پورے کے برابر بھی آگے بڑھا تو جل جاؤں گا۔(تفسیر کبیر للرازی، ج2،ص445، دار إحياء التراث العربي) (غرائب القرآن ورغائب الفرقان، ج 1، ص 238، دار الكتب العلميه) (تفسیر روح البیان، ج 9، ص 224، دار الفكر، بيروت)
شرح الشفا للملا علی قاری میں ہے:
(قال) أي النبي صلى الله تعالى عليه و سلم (فارقني جبريل) أي في مقام قرب الجليل و قال لو دنوت انملة لاحترقت
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ”مجھ سے جبریل جدا ہوگئے یعنی مقامِ قربِ جلیل میں اور کہا کہ اگر میں ایک پورے کے برابر بھی آگے بڑھا تو جل جاؤں گا۔ (شرح الشفا للملا علی قاری، ج 1، ص 440، دار الكتب العلمية)
نور سے مخلوق ہونے کے باجود جلنے کا ممکن ہونا ایسا ہی ہے جیسے آگ سے مخلوق ہونے کے باوجود جلنے کا ممکن ہونا۔ سورۃ الجن آیت نمبر 15 میں کافر جنوں کے متعلق ہے:
وَ اَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا
ترجمہ: اور رہے ظالم وہ جہنم کے ایندھن ہوئے۔ اس کی تفسیر میں خازن میں ہے:
فإن قلت كيف يعذب الجن بالنار و قد خلقوا منها،قلت و إن خلقوا من النار فقد تغيروا عن تلك الهيئة و صاروا خلقا آخر واللہ تعالى قادر أن يعذب النار بالنار
ترجمہ: اگر تم یہ کہو کہ جن کو آگ کا عذاب کیسے دیا جائے گا حالانکہ وہ تو خود اسی سے بنے ہیں؟ میں کہوں گا اگر چہ وہ آگ سے بنے ہیں لیکن اب آگ کی ہیئت پر باقی نہیں اور دوسری مخلوق ہوگئے اور یہ بھی کہ اللہ تعالی آگ کو آگ سے عذاب دینے پر قادر ہے۔ (لباب التأويل في معاني التنزيل المعروف تفسیر خازن، ج 4، ص 351، دار الكتب العلمية)
صراط الجنان میں ہے: ”اِس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کافر جن جہنم کی آگ کےعذاب میں گرفتار کئے جائیں گے اور یاد رہے کہ جِنّات اگرچہ آگ سے پیدا کئے گئے ہیں،لیکن اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ آگ کو آگ کے ذریعے عذاب میں مبتلاء کر دے یا جِنّات کی ہَیئَت تبدیل کر کے انہیں عذاب دے لہٰذا یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب جِنّات آگ سے پیدا کئے گئے ہیں، تو انہیں آگ سے عذاب کیسے ہو گا۔“ (صراط الجنان، ج 10، ص 392،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0403
تاریخ اجراء: 10 صفر المظفر 1446ھ / 16 اگست 2024ء