
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا جان "حضرت عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ" کا اصل نام "شیبۃ الحمد" تھا؟ برائے کرم جواب ارشاد فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دادا جان "حضرت عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ" کا اصل نام”شیبۃ الحمد“ تھا۔
سبل الہدی والرشاد میں ہے
"عبد المطلب: مفتعل من الطلب. يكنى أبا الحارث، و أبا البطحاء، و اسمه شيبة الحمد. قال السهيلي: و هو الصحيح. و قيل عامر. قال أبو عمر رحمه الله تعالى: و لا يصح: و اختلف لم سمّي شيبة. فقيل: إنه ولد و في رأسه شيبة و كانت ظاهرة في ذؤابته. و قيل: لأن أباه وصّى أمه بذلك"
ترجمہ: عبدالمطلب: یہ لفظ ”مفتعل“ کے وزن پر ہے، جو ”طلب“ (چاہنا، مانگنا) سے نکلا ہے۔ ان کی کنیت ابوالحارث اور ابو البطحاء تھی، اور ان کا اصل نام شیبۃ الحمد تھا۔سہیلی (مشہور مورخ) کہتے ہیں: یہی صحیح ہے۔کچھ نے ان کا نام عامر بھی بتایا ہے، لیکن ابو عمر رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ درست نہیں ہے۔ ان کے ”شیبہ“ نام رکھنے کی وجہ میں اختلاف ہے: کچھ کا کہنا ہے کہ وہ پیدا ہوئے تو ان کے سر میں سفید بال تھا، جو ان کی زلف میں واضح نظر آتا تھا۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ ان کے والد (ہاشم) نے ان کی والدہ (سلمیٰ) کو یہ نام رکھنے کی وصیت کی تھی۔ (سبل الہدی و الرشاد، جلد 01، صفحہ 262، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)
شرح الزرقانی میں ہے
"عبد المطلب، واسمه شيبة الحمد، في قول محمد بن إسحاق، و هو الصحيح ۔۔۔ قيل: إنما قيل له عبد المطلب، لأن أباه هاشما قال لأخيه المطلب، و هو بمكة، حين حضرته الوفاة: أدرك عبدك بيثرب، فمن ثم سمي عبد المطلب، وقيل: إن عمه المطلب جاء به إلى مكة رديفه – و هو بهيئة بذة- فكان يسأل عنه فيقول: هو عبدي، حياء أن يقول: ابن أخي، فلما أدخله و أحسن من حاله، أظهر أنه ابن أخيه، فلذلك قيل له: عبد المطلب۔"
ترجمہ: محمد بن اسحاق کے قول کے مطابق حضرت عبد المطلب کا نام "شیبۃ الحمد" ہے اور یہی صحیح ہے۔۔۔ اور ایک قول یہ کیاگیاہے کہ ان کو عبد المطلب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد ھاشم نے اپنی وفات کے قریب جبکہ وہ مکہ مکرمہ تھے، اپنے بھائی مطلب کوکہاکہ اپنے عبد (بیٹے) کو یثرب لے جا، پس اسی وجہ سے ان کا نام عبد المطلب پڑ گیااور ایک قول یہ کیاگیا ہے کہ ان کے چچا مطلب ان کو اپنے پیچھے بٹھاکر مکہ مکرمہ لے کر آئے اور یہ اچھی حالت میں نہیں تھے، تو جب ان کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ ان کی حالت کی وجہ سے ان کو اپنا بھتیجا کہنے میں شرم محسوس کرتےتھےاس لیےوہ کہتے یہ میرا عبد (غلام) ہے، پھر جب ان کومکہ مکرمہ لے آئے اور ان کی حالت سنواری تو انہوں نے ظاہر کیا کہ یہ وہ ان کے بھتیجے ہیں، پس اسی وجہ سے ان کو عبد المطلب کہا گیا۔(شرح الزرقانی علی المواھب،جلد 1، صفحہ 135 تا 137، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3915
تاریخ اجراء: 17 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 14 جون 2025 ء