ماں باپ اور پیر میں زیادہ رتبہ کس کا ہے؟

پیر کا مرتبہ والدین سے زیادہ ہے

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ماں باپ کا مرتبہ زیادہ ہے یا پیر کا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر پیر صاحب شریعت مطہرہ کے احکام کے پابند اور شیخ کی شرائط کے جامع ہوں تو ان کا مرتبہ والدین سے زیادہ ہے، کیونکہ حقیقی والدین بدن کی تربیت کرتے ہیں اور پیر و دینی استاذ روحانی باپ ہونے کی وجہ سے روح کی تربیت کرتے ہیں اور دینی و روحانی تربیت بدن کی تربیت سے زیادہ بڑی نعمت ہے۔

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں: ”پیر اور استاد ِ علمِ دین کا مرتبہ ماں باپ سے زیادہ ہے۔ وہ مربی بدن ہیں یہ مربی روح، جو نسبت روح سے بدن سے ہے، وہی نسبت استاد و پیر سے ماں باپ کو ہے،

کما نص علیہ العلامۃ الشرنبلالی فی غنیۃ ذوی الاحکام و قال فیہ ذا ابو الروح لا ابو النطف

(جیسا کہ علامہ شرنبلالی نے غنیہ ذوی الاحکام میں اس کی صراحت فرمائی چنانچہ اس میں ارشاد فرمایا یہ استاد انسان کی روح کا باپ ہے اس کے مادۂ تولید (نطفہ) سے بنے ہوئے جسم کا باپ نہیں) لہٰذا جو فرق جسم اور روح میں ہے وہی فرق استاد اور والدین میں ہے۔ قرآن عظیم میں ماں باپ کا ذکر فرمایا یہ نہیں فرمایا کہ ان کے برابر کسی کا حق نہیں بلکہ وہ آیہ کریمہ جس میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو فرمایا، مربیان دین کا مرتبہ ماں باپ سے بہت زائد ہونے کی طرف اشارہ فرماتی ہے ظاہر ہے کہ تربیتِ دین نعمتِ عظمیٰ ہے اور اس کا شکر قطعاً فرض، مگر ان کا شکر بعینہ شکرِ الٰہی عزوجل ہے اسی واسطے انہیں لی میں داخل فرمایا، ان کے بعد والدین کا ذکر ارشاد ہوا، ورنہ والدین کا حق نبی سے بھی بڑھ جائے گا کہ یہاں جس طرح استاد و پیر کا ذکر نہیں ویسے ہی نبی کا بھی ذکر نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 701 ، 702، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ایک اور مقام پر آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: "اساتذہ و شیوخِ علومِ شرعیہ بلاشبہ آبائے معنوی و آبائے روح ہیں جن کی حرمت و عظمت آبائے جسم سے زائد ہے کہ وہ پدر آب و گل ہے، اور یہ پدر جان و دل۔ علامہ مناوی تیسیر جامع صغیر میں فرماتے ہیں:

”من علم الناس ذاک خیر اب ذا ابو الروح لا ابو النطف“

یعنی استاد کا مرتبہ باپ سے زیادہ ہے کہ وہ روح کا باپ ہے، نہ نطفہ کا۔" ( فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 451، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3883

تاریخ اجراء: 29 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 27 مئی 2025 ء