
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا بھٹکے ہوئے انسان کی توبہ قبول ہوجاتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اللہ پاک کی رحمت بہت بڑی ہے، ایسا کوئی گناہ نہیں ہے کہ بندہ اس سے سچی توبہ کرے اور اس کی بخشش نہ ہو، یہاں تک کہ بندہ اگر صدق دل سے کفر و شرک سے توبہ کر کے کلمہ پڑھ لیتا ہے، تو اللہ پاک اس کی توبہ بھی قبول فرما لیتا ہے۔ لہذا بھٹکا ہوا انسان بھی اگر سچی توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے۔
سچی توبہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنے پر شرمندہ ہوتے ہوئے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اوراگراس گناہ کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان اس کی تلافی کرے، مثلاً نماز چھوڑی تھی تو اب قضا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعد توبہ وہ مال اصل مالک، وہ نہ رہے تو اس کے وارثوں کو واپس کرے یا معاف کروالے اور اگر وارثوں کا پتا نہ چلے توان کی طرف سے اتنا مال صدقہ کردے اور دل میں یہ نیّت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے، اگر صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں ادا کردوں گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ- اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ- اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ)
ترجمہ کنز العرفان: تم فرماؤ: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے، بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ (القرآن، سورۃ الزمر، پارہ 24، آیت: 53)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
قال الله تبارك و تعالى: يا ابن آدم إنك ما دعوتني ورجوتني غفرت لك على ما كان فيك و لا أبالي، يا ابن آدم لو بلغت ذنوبك عنان السماء ثم استغفرتني غفرت لك، و لا أبالي، يا ابن آدم إنك لو أتيتني بقراب الأرض خطايا ثم لقيتني لا تشرك بي شيئا لأتيتك بقرابها مغفرة
ترجمہ:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے انسان! جب تک تو مجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پروا نہیں۔ اے انسان! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پروا نہیں۔ اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے اور مجھ سے اس حالت میں ملے کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے تو میں تمہیں اس (زمین) کے برابر بخش دوں گا۔ (سنن الترمذی، جلد 5، صفحہ 548، حدیث 3540، مطبوعہ: مصر)
توبہ کے متعلق امامِ اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لئے کہ وہ اس کے رب عزو جل کی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کر فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجا لائے۔ مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب، سرقہ، رشوت، رباسے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق کردے اور دل میں یہ نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 121۔ 122، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”توبہ سے مراد سچی اور مقبول توبہ ہے جس میں تمام شرائط جواز و شرائط قبول جمع ہوں کہ حقوق العباد اور حقوق شریعت ادا کردیئے جائیں،پھر گزشتہ کوتاہی پر ندامت ہو اور آئندہ نہ کرنے کا عہد، اس توبہ سے گناہ پر مطلقًا پکڑ نہ ہوگی بلکہ بعض صورتوں میں تو گناہ نیکیوں سے بدل جائیں گے۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 3، صفحہ 378، 379، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4102
تاریخ اجراء: 11 صفر المظفر 1447ھ / 06 اگست 2025ء