
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں مختلف کمپنیوں میں مال دیتا ہوں، تو کمپنی کے مینیجر ہم سے ڈیل کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اگر اپنا مال نکلوانا ہے، تو ہمیں بھی کچھ کمیشن دو، ورنہ ہم اس مال میں نقص وغیرہ بتا کے روک دیں گے، حالانکہ مینیجر کمپنی سے اسی کام کی تنخواہ لیتا ہے کہ مینیجرہر وہ مال جو کمپنی کے متعلق اور اُس کے لیے نفع بخش اور اُس کے وارے میں ہو اُسے پاس کرے، تو اس کا ایسا کرنا کیسا اور اس کو پیسے دینا کیسا؟ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مال اوکے(ok) کرنا، پاس کرنا مینیجرز کے اجارے میں شامل ہے، لہٰذا ان پر لازم ہے کہ یہ دیانت داری کے ساتھ درست مال کو پاس کریں اور نادرست مال کو ريجیکٹ کردیں۔ جو مال اوکے ہونے کے لیے ان کے پاس آئے گا اس کی دوصورتیں ہوں گی: (1) یا تو وہ مال نادرست ہوگا۔ (2) یادرست ہوگا۔
(1) جو نادرست ہے اس کو پاس کرنا اپنے عہدے سے خیانت، جھوٹ اور اپنی کمپنی کو دھوکہ دینا ہے اور یہ سب ناجائز و حرام ہے اور اگر پیسے لے کر ایسے مال کو پاس کرے گا، تو یہ رشوت ہوگی کہ مال پاس کروانے والا اپنا کام نکلوانے کے لیے پیسے دے رہا ہے اور یہ لے رہا ہے اور رشوت دینا لینا باعث لعنت، ناجائز و حرام ہے۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے :
’’ لعن رسول الله صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم الراشی و المرتشی‘‘
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے رشوت لینے والے اور دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (سنن ابو داؤد، کتاب القضاء، باب فی کراھیۃ الرشوۃ، جلد 2، صفحہ 148، مطبوعہ لاھور)
امام اہلسنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’ر شو ت لینا مطلقاً حرام، کسی حا لت میں جائزنہیں۔ جو پرا یا حق دبانے کے لیے د یا جا ئے، رشو ت ہے۔ یو ہیں جو اپنا کام نکلوانے کے لیے حاکم کو دیا جائے رشو ت ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 597، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
(2) جودرست مال ہے وہ ایسا ہے کہ کمپنی کے متعلق ہے، اُس کے لیے نفع بخش ہے اور اُس کے وارے میں بھی ہے۔ اُسے پاس کرنے کے لیے پیسے لینا بھی رشوت ہے۔ مزید یہ کہ مذکورہ اوصاف والا مال پاس کرنے پر اِن کا اجارہ ہے، تو یہ کام دیانتداری سے کرنا ویسے ہی اِن پرواجب ہے، اوراپنا واجب ادا کرنے کے لیے پیسے وصول کرنا، جائز نہیں ہے۔ اسی طرح مال تو درست ہے، لیکن کمپنی کو درست مال دینے والے زیادہ ہیں اور مال دینے والا یہ چاہتا ہے کہ میرا مال پہلے نکل جائے یا ان میں سے میرا ہی مال لیا جائے، اس لیے مینیجر کو پیسے دیتا ہے، تو یہ بھی پہلی صورت میں داخل ہوگا کہ اب وہ جو پیسے دے رہا ہے، اپنا کام نکلوانے کے لیے ہیں اور یہ بھی رشوت ہے۔
فتح القدیرمیں ہے:
’’الثانی ارتشاء القاضی لیحکم وھو کذلک حرام من الجانبین. ثم لا ینفذ قضاؤہ فی تلک الواقعۃ التی ارتشی فیھا، سواء کان بحق أو بباطل. أما فی الحق فلأنہ واجب علیہ فلا یحل أخذ المال علیہ. و أما فی الباطل فأظھر ‘‘
ترجمہ: رشوت کی دوسری قسم قاضی کا فیصلہ کرنے کے لیے رشوت لینا ہے اوریہ بھی پہلی قسم کی طرح جانبین (لینے والے اوردینے والے دونوں) کی طرف سے حرام ہے، پھراس واقعہ میں جس میں اس نے رشوت لی ہے، اس کی قضاء نافذ نہیں ہوگی چاہے وہ حق ہو یا باطل، رہا حق تو وہ اس لیے کہ اس کا فیصلہ کرنا اس پر واجب تھا، لہٰذا اس پرمال لینا اس کے لیے حلال نہیں اور رہا باطل تو یہ زیادہ ظاہر ہے۔ (فتح القدیر، جلد 7، صفحہ 254، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: Lar-9964
تاریخ اجراء: 28 محرم الحرام 1442ھ / 17 ستمبر 2020ء