Sattaking گیم کھیلنا جائز ہے؟

Sattaking گیم کھیلنے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

Sattaking کھیلنا کیساہے؟ اور یہ  Satta کیا ہوتا ہے؟ بہت سارے لوگ  اسے  کھیلتے ہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

Sattaking ایک گیم کا نام ہے۔ اس گیم کے  ذریعے مختلف افراد آن لائن ایپ میں اپنی طرف سے 0 سے لے کر99 تک کا عدد منتخب کرتے ہیں۔ پھر اس پر رقم لگائی جاتی ہے۔  پھر مخصوص وقت میں اس دن کے رزلٹ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اگر مطلوبہ نمبر کے مطابق ہو تو پیسے بڑھ جائیں گے ورنہ پیسے ڈوب جائیں گے،  یہ بعینہ جوا ہے،  جو کہ ناجائز و حرام ہے۔ لہذا  Sattaking نامی گیم کھیلنا جائز نہیں ہے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (القرآن ،  سورۃ المائدۃ ،  پارہ 7،  آیت 90)

اس آیت پاک کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ”اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: جوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے۔ احادیث میں جوئے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے،  چنانچہ جوئے کے ایک کھیل کے بارے میں حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،  رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے نرد شیر (جوئے کا ایک کھیل) کھیلا تو گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔ اور حضرت ابوعبد الرحمٰن خطمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،  حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص نرد کھیلتا ہے پھر نماز پڑھنے اٹھتا ہے،  اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیپ اور سوئر کے خون سے وضو کرکے نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے۔

جوئے کے دنیوی نقصانات:۔۔۔۔ (1)… جوئے کی وجہ سے جوئے بازوں میں بغض،  عداوت اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے اور بسا اوقات قتل و غارت گری تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ (2)… جوئے بازی کی وجہ سے مالدار انسان لمحوں میں غربت و افلاس کا شکار ہو جاتا ہے،  خوشحال گھر بدحالی کا نظار ہ پیش کر نے لگتے ہیں،  اچھا خاصا آدمی کھانے پینے تک کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے،  معاشرے میں اس کا بنا ہو اوقار ختم ہو جاتا ہے اور سماج میں اس کی کوئی قدرو قیمت اور عزت باقی نہیں رہتی۔ (3)… جوئے باز نفع کے لالچ میں بکثرت قرض لینے اور کبھی کبھی سودی قرض لینے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے اور جب وہ قرض ادا نہیں کر پاتا یا اسے قرض نہیں ملتا تو وہ ڈاکہ زنی اور چوری وغیرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے حتّٰی کہ جوئے باز چاروں جانب سے مصیبتوں میں ایسا گھر جاتا ہے کہ بالآخر وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور انہیں اس شیطانی عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (صراط  الجنان، جلد03 صفحہ 23، 24،  مکتبۃ المدینہ،  کراچی)

        تبیین الحقائق میں ہے

”القمار من القمر الذی  يزاد تارة،  وينقص اخرى،  وسمي القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه، ويجوز ان يستفيد مال صاحبه۔۔۔وهو حرام بالنص“

 ترجمہ:قمار قمر سے نکلا ہے،  جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے،  قمار کو قمار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں یہ امکان ہوتا ہے کہ جوئے بازوں میں سے ایک کامال دوسرے کے پاس چلا جائے اوریہ بھی امکان ہوتاہے کہ وہ اپنے ساتھی کامال حاصل کرلے۔ اور یہ نص کی وجہ سے حرام ہے۔ (تبیین الحقائق ،  مسائل شتی،  ج6،  ص 227،  مطبوعہ  ملتان)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-4172

تاریخ اجراء: 08 ربیع الاول1447 ھ/02ستمبر 2520 ء