توبہ کے ارادے سے گناہ کرنے کا حکم

توبہ کے ارادے سے گناہ کرنا

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی بندہ کثیر گناہ کرے اور گناہ کرنے سے پہلے یہ ارادہ (PLAN ) رکھے کہ گناہ کرنے کے بعد توبہ کر ہی لینی ہے تو اس کی توبہ کا کیا حکم ہوگا ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

گناہ کرنے سے پہلے یہ ارادہ کرکے رکھنا کہ بعد میں توبہ کرلوں گا اور توبہ کے بھروسے پر گناہ کرنا، بہت بڑی جرأت و بیباکی ہے بلکہ بعض اوقات ایسی صورت میں آدمی گناہ کو یوں ہلکا سمجھ کر کرتا ہے جیسے مباح و جائز کام کرلیتا ہےاور یہ صورت کفر تک پہنچانے والی ہے۔ بہرحال یہ شیطان کا بہت بڑا دھوکہ ہے کہ انسان کو گناہ پر آمادہ کرنے کیلئے یہ خیال دل میں ڈال دیتا ہے کہ "بعد میں توبہ کر لینا، اللہ غفور و رحیم ہے" جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موت کا وقت معلوم نہیں، اور کوئی بھی لمحہ آخری لمحہ ہو سکتا ہے۔ بعض دفعہ تو اس طرزِ فکر کی وجہ سے انسان رفتہ رفتہ گناہوں میں ڈھیٹ ہو جاتا ہے، اور پھر توبہ کی توفیق بھی چھن جاتی ہے، لہذااولاً تو اس بُرے فکر و ارادے  سے باز آنا ضروری ہے۔ باقی جہاں تک اس کے بعد گناہ سے توبہ کرنے کی بات ہے تو اگر کوئی محض رسمی توبہ کرے اور دل میں یہی ارادہ ہو کہ معاذ اللہ عزوجل پھر گناہ کرکے اسی طرح  توبہ کرلوں گا جیسا ہر دفعہ کرتا ہوں تو اس کی توبہ ہرگز مقبول نہیں کہ یہ حقیقی توبہ ہی نہیں لیکن اگر وہ واقعی سچے دل سے حقیقی توبہ کرلے یعنی گناہ پر سچی ندامت ہو اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو، اور پھر بتقاضائے بشریت گناہ ہوجائے، تو اللہ کی رحمت سے یہی امید ہے کہ اس کی توبہ قبول ہوگی، کیونکہ ایسا کوئی گناہ نہیں ہے کہ بندہ اس سے شرائط کے مطابق سچی توبہ کرے اوراس کی بخشش نہ ہو، یہاں تک کہ بندہ اگر شرائط کے مطابق سچے دل سے کفروشرک سے توبہ کر کے کلمہ پڑھ لیتا ہے، تو اللہ پاک اس کی توبہ بھی قبول فرمالیتا ہے۔

 پردے کے بارے میں سوال جواب کتاب میں ہے: ’’خدا کی قسم ! یہ شیطان کابَہُت بڑا او ر بُراوار ہے۔ اس ارادے سے گناہ کرنا کہ بعد میں توبہ کرلوں گا یہ اَشَدّ کبیرہ یعنی سخت ترین کبیرہ گناہ ہے۔‘‘ (پردے کے بارے میں سوال جواب، صفحہ69، مکتبۃالمدینہ، کراچی)

توبہ کے ارادے سے گناہ کرنے میں اگر گناہ کو ہلکا سمجھنا ہو تو یہ کفر ہے، چنانچہ شرح فقہ الاکبرمیں ہے:

”إن استحلال المعصیة إذا ثبت کونھا معصیةً بدلالة قطعیة وکذا الاستھانة بھا کفر بأن یعدھا ھنیئةً سھلةً ویرتکبھا من غیر مبالاة بھا ویجریھا مجری المباحات في ارتکابھا“

 ترجمہ: کسی گناہ کو حلال سمجھنا جبکہ اس کا گناہ ہونا دلیل قطعی سے ثابت ہو(یہ کفر ہے)، اسی طرح گناہ کو ہلکا سمجھنا بھی کفر ہے، یعنی اسے معمولی اور آسان سمجھ کر کرے اور اس کی پروا نہ کرے اور اس کے ارتکاب کو ایسے جاری رکھے جیسے مباحات (جائز کاموں) کو کرتا ہے۔ (شرح فقہ الأکبر لملا علي قاري، صفحہ423، دار البشائر الاسلامیہ)

گناہوں کی معافی سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:

’’﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ؕ-  اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-  اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵)﴾“

 ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے، بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ (القرآن الکریم، پ24، سورۃ الزمر: 53)

مذکورہ آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ’’اس آیت سے معلوم ہو ا کہ بندے سے اگرچہ بڑے بڑے اور بے شمار گناہ صادر ہوئے ہوں لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے انتہا وسیع ہے اور ا س کی بارگاہ میں توبہ کی قبولیت کا دروازہ تب تک کھلا ہے جب تک بندہ اپنی موت کے وقت غَرغَرہ کی حالت کو نہیں پہنچ جاتا، اس وقت سے پہلے پہلے بندہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اس کے سب گناہ معاف فرما دے گا۔ ‘‘ (صراط الجنان، جلد8، صفحہ488، 487، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’سچی توبہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے ربّ عَزَّوَجَلّ َکی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کرفوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ121، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-871

تاریخ اجراء: 05ربیع الاول1446ھ/30 اگست 2025ء