فقہ شافعی میں میوزک کس حد تک جائز ہے؟

کیا فقہ شافعی میں میوزک جائز ہے ؟ فقہ شافعی میں میوزک کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ شوافع کے نزدیک میوزک کس حد تک جائز ہے اور کیا صورتیں ناجائز ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

موسیقی (Music)سننا،سنانا،ناجائز و گناہ ہے،قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت بیان ہوئی ہے،موسیقی میں استعمال کیے جانے والے عموماً آلات  موسیقی شوافع کے نزدیک بھی ناجائز وحرام ہیں،جلیل القدر فقہائے شافعیہ نے بصراحت ذکر کیا کہ ہمارے نزدیک اصح و معتمد قول کے مطابق ایک دو آلات کے علاوہ تمام آلاتِ موسیقی کا استعمال، ان کا سننا، سنانا، ناجائز ہے، حتی کہ امام شہاب الدین رملی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے”حاشیۃ الرملی الکبیر علی اسنی المطالب فی شرح روضۃ الطالب“میں اور علامہ ابن حجر ہیتمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے خطیب الشام امام دولقی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے حوالے سے”کفّ الرعاع عن محرمات اللھو و السماع“میں لکھا کہ بعض اہل علم حضرات نےمذہبِ شافعی کی طرف نسبت کرتے ہوئے بانسری کا حلال ہونا بیان کیا ہے اور معاذاللہ !اسے امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ یا ان کے معتمد اصحاب میں سے کسی کا مذہب قرار دیا، ان حضرات پر انتہا درجے کا تعجب ہے کہ انہوں نے اتنی بڑی نسبت کر دی، حالانکہ اس بات کی کوئی اصل نہیں ،یہ بات ثابت شدہ اور مسلّم ہے کہ امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بشمول بانسری تمام آلاتِ موسیقی کو حرام قرار دیا ہے،بلکہ بانسری کو تو بدرجہ اولیٰ حرام ہونا چاہیے کہ دیگر آلات کے مقابلہ میں اس میں تاثیر زیادہ ہے۔ نیز بعض علمائے شافعیہ نے اپنی کتب میں آلاتِ موسیقی میں سے ہر ایک کو الگ الگ ذکر کے اس کا معنی و مفہوم پھر جس کے متعلق کوئی اختلاف تھا تو اس کو بیان کیا اور معتمد اور شوافع کا مذہب بھی بیان کیا، اس قدر تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مطلقاً شوافع کی طرف موسیقی کے جواز کو منسوب کرنا، بہت بڑی خیانت اور جلیل القدر ائمہ دین پر تہمت ہے۔

البتہ دفّ کے متعلق فقہائے شافعیہ کی مختلف آراء ہیں،بعض شوافع نے مطلقاً اعلانِ نکاح کے لیے یا خوشی کے اظہار کےلیے دفّ بجانے کو جائز قرار دیا،جیساکہ بچے کی ولادت پر،عید کے موقع پر،کسی گمشدہ شخص کے واپس آنے پر، مریض کو شفاء ملنے پر دف بجانے کو اور بادشاہ یا کسی معزز یا کسی قافلہ کی واپسی کے اعلان کے لیے نقّارہ بجانے کو جائز قرار دیا، بلکہ بعض نے شادی اور ختنہ کے موقع پر دفّ کو نہ صرف جائز ،بلکہ مستحب قرار دیا ہے،جيساکہ امام بغوی شافعی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے”شرح السنۃ“میں اس کی صراحت کی۔پھر اس میں بھی بعض کا اختلاف ہے، بعض جھانج کے ساتھ بھی جائز قرار دیتے ہیں اور بعض جھانج نہ ہونے کی صورت میں مشروط اجازت دیتے ہیں۔ اور بعض نے علاقوں کے عُرف و رواج اور فسادِ زمانہ کے اعتبار سے حکم میں فرق بیان کیا ہے۔ یونہی بانسری کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں،تاہم اصح قول وہی ہے جو اوپر بیان کر دیا گیا۔

قاضی القضاۃ ابو الحسن امام علی بن محمد المعروف”امام ماوردی“رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات: 450 ھ) لکھتے ہیں:

و أما الملاهي فعلى ثلاثة أضرب: حرام، و مكروه، و حلال، فأما  الحرام: فالعود والطنبور والمعزفة والطبل و المزمار و ما ألهى بصوت مطرب إذا انفرد،وروى عبد اللہ بن عمر…،وأما المكروه:فما زاد به الغناءطربا، و لم يكن بانفراده مطربا، كالفسح، و القضيب، فيكره مع الغناء لزيادة إطرابه ولا يكره إذا انفرد لعدم إطرابه، و أما المباح: فما خرج عن آلة الاطراب، إما إلى إنذار كالبوق،وطبل الحرب ،أو لمجمع وإعلان كالدف في النكاح، كما قال صلوات اللہ عليه وسلامه: ”أعلنوا هذا النكاح واضربوا عليه بالدف

 ترجمہ:بہر حال لہو و لعب کے آلات تو وہ تین قسم پر ہیں۔ حرام، مکروہ اور حلال، بہرحال جو آلات موسیقی حرام ہیں،تو وہ سارنگی، ستار (ایک قسم کا باجا)، ساز،  ڈھول، بانسری اور ہر اس چیز کی آواز جس کو اکیلے بجايا جائے، تو وہ مطرب یعنی بے خود اور مست کر دیتی ہو، (اس کی حرمت کے متعلق )حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے روایت بیان کی۔۔۔ اور بہر حال مکروہ آلات وہ ہیں جن کے ساتھ گانا گایا جائے تو طرب و سرور پیدا ہو اور ان کو اکیلے بجانے سے طرب نہ ہو،جیساکہ تلوار وغيره، لہٰذا اس میں طرب کے زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ گانے کے ساتھ مکروہ و ممنوع ہو گا اور ان کو اکیلے بجانے میں طرب نہ ہونے کی وجہ سے مکروہ نہیں ہوگا۔ اور بہرحال مباح و جائز، تو ہر وہ چیز جو آلاتِ طرب میں نہ آتی ہو،وہ جائز ہے،جیسے ڈرانے کے لیے بَگل بجانا، یا جنگ،مجمع یا اعلان کے لیے طبل بجانا یا نکاح میں دف بجانا، جیسا کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں نکاح کا اعلان کرو اور دف بجاؤ۔ (الحاوی الکبیر،جلد 17، صفحہ 192،مطبوعہ دار الكتب العلمية،بيروت)

آلاتِ موسیقی کے استعمال اور استماع کے حوالے سے جامع اور مفصل گفتگو کرتے ہوئے”روضة الطالبين و عمدة المفتين“میں امام شرف الدین نَوَوِی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:676ھ/1277ء) لکھتے ہیں:

أن يغني ببعض آلات الغناء مما هو من شعار شاربي الخمر وهو مطرب كالطنبور والعود والصنج وسائر  المعازف و الأوتاريحرم استعماله واستماعه،وفي اليراع وجهان صحح البغوي التحريم والغزالي الجواز، و هو الأقرب، …قلت:الأصح أو الصحيح تحريم اليراع، وهو هذه الزمارة التي يقال لها الشبابة وقد صنف الامام أبو القاسم الدولقي كتابا في تحريم اليراع مشتملا على نفائس، وأطنب في دلائل تحريمه

ترجمہ:موسیقی کے اُن آلات کے ساتھ گانے گاناجو شرابیوں کی عادت ہے اور وہ آلاتِ طرب ہیں،جیساکہ ستار (ایک قسم کا باجا)، سارنگی، جھانجھ، (یا پیتل کے دو چھوٹے چھوٹے حلقے جو دف کے کناروں یا رقّاصہ کی انگلیوں پر باندھ دئیے جاتے ہیں اور ان سے آواز پیدا ہوتی ہے)اور تمام آلاتِ موسیقی، باجے اور کمان کی تانت والے آلاتِ موسیقی، ان کو استعمال کرنا اور سننا حرام ہے۔ اور یراع یعنی بانسری کے بارے میں دو صورتیں ہیں ،امام بغوی نے تحریم کی تصحیح کی ہے اور امام غزالی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے جواز کی اور یہ زیادہ قریب ہے۔میں کہتاں ہوں:اصح یا صحیح بانسری کی حرمت ہے،اور یہ وہ آلۂ موسیقی ہے جسے شبابہ بھی کہاجاتا ہے،امام ابو القاسم دولقی نے اس کی حرمت پر ایک کتاب تصنیف کی ہے جو بہت نفیس کلام پر مشتمل ہے اور آپ نے اس کی حرمت میں کثیر دلائل بیان کیے ہیں۔ (روضة الطالبين و عمدة المفتين، 11/ 228،ط: المكتب الاسلامي، بيروت)

اَئمہ شافعیہ کی طرف مزامیر اور موسیقی کے جواز کی نسبت باطل اور حقیقت کے خلاف ہے،چنانچہ علامہ ابن حجر ہیتمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:972ھ) نے خطیب الشام امام دولقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کے حوالے سے”کفّ الرعاع عن محرمات اللھو والسماع“میں لکھا:

و العجب كل  العجب ممن هو من أهل العلم يزعم أن الشبابة حلال، ويحكيه وجها لا مستند له إلا خيال، ولا أصل له وينسبه إلى مذهب الشافعي، ومعاذ اللہ أن يكون ذلك مذهبا له أو لأحد من أصحابه الذين عليهم (التعويل) في علم مذهبه و الانتماء إليه، و قد علم من غير شك أن الشافعي حرم سائر أنواع الزمر، والشبابة من جملة الزمر، و أحد أنواعه، بل هي أحق بالتحريم من غيرها لما فيها من التأثير فوق ما في الناي وصونای

یعنی اُن اہلِ علم پر کس قدر سخت تعجب ہے کہ جو بانسری کو حلال اور جائز خیال کریں اور پھر اُسے یوں حکایت کرتے پھریں کہ جس کی بنیاد صرف ایک خیال پر ہے، جس کی کوئی مضبوط بنیاد یا اصل نہیں اور اُس حکم کو مذہبِ شافعیہ کی جانب منسوب کریں اور معاذاللہ! اسے امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ یا آپ کے جلیل القدر اصحاب جن کی طرف علمی لحاظ سے مذہب کی نسبت کی جاتی ہے اور ان پر اعتماد کیا جاتا ہے، ان میں سے کسی کا مذہب قرار دیں،حالانکہ یہ بات بلا شک و شبہ ثابت شدہ اور مسلّم ہے کہ امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے تمام آلاتِ موسیقی کو حرام قرار دیا ہے اور خاص بانسری بھی مزامیر کی ہی ایک قسم ہے، بلکہ اس کو تو بدرجہ اولیٰ حرام ہونا چاہیے کہ دیگر آلات کے مقابلہ میں اس میں تاثیر زیادہ ہے۔ (کفّ الرعاع عن محرمات اللھو و السماع، صفحہ 71، ط:مکتبۃ القران للطباعۃ و النشر، القاھرۃ)

تقی الدين ابو عمرو،عثمان بن عبد الرحمن،المعروف امام”ابن صلاح “رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سال وفات: 643 ھ)لکھتے ہیں:

و أما اباحة هذا السماع وتحليله فليعلم أن  الدف والشبابة والغناء إذا اجتمعت فاستماع ذلك حرام عند أئمة المذاهب وغيرهم من علماء المسلمين ولم يثبت عن أحد ممن يعتد بقوله في الاجماع والاخلاف أنه أباح هذا السماع والخلاف المنقول عن بعض أصحاب الشافعي إنما نقل في الشبابة منفردا والدف منفردا فمن لا يحصل أولا يتأمل ربما اعتقد فيه خلافا بين الشافعيين في هذا السماع الجامع هذه الملاهي وذلك وهم

 ترجمہ: مفہوم وہی ہے جو مذکورہ بالا عبارت میں بیان کیا گیا۔(فتاوى ابن الصلاح، جلد 2، صفحہ 500، مطبوعہ مكتبة العلوم و الحكم، عالم الكتب، بيروت)

اسی بات کو ”اسنى المطالب في شرح روض الطالب“ کے تحت حاشیۃ الرملی میں علامہ شہاب الدین رملی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:

(قوله وكذا اليراع)والعجب كل العجب ممن هو من أهل العلم ويزعم أن الشبابة حلال ويحكيه وجها في مذهب الشافعي و لا أصل له وقد علم أن الشافعي وأصحابه قالوا بحرمة سائر أنواع المزامير و الشبابة منها بل هي أحق من غيرها بالتحريم فقد قال القرطبي إنها من أعلى المزامير وكل ما لأجله حرمت المزامير موجود فيها وزيادة فتكون أولى بالتحريم قلت:وما قاله حق واضح و المنازعة فيه مكابرة۔

مفہوم بیان ہو چکا ہے۔ (اسنى المطالب مع حاشیۃ الرملی،4/ 344،ط:دار الكتاب الاسلامي)

ذکرکردہ ان تینوں کتب ”اسنى المطالب في شرح روض الطالب“،”فتاوی ابن صلاح “اور” کفّ الرعاع عن محرمات اللھو والسماع“کی عبارات سے روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ائمہ شافعیہ کی طرف موسیقی کے جواز کی نسبت سراسر باطل اور غلط ہے۔

چاروں فقہی مذاہب کے حوالے سے موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

و المعتمد عند أكثرهم أنه يحرم استعمال آلة من شعار الشربة كطنبور وعود، و جدك و صنج و مزمار عراقي و سائر أنواع الأوتار والمزامير؛ لأن اللذة الحاصلة منها تدعو إلى فساد كشرب الخمر لا سيما من قرب عهده بها؛ ولأنها شعار الفسقة والتشبه بهم حرام۔

 مفہوم اوپر بیان ہو چکا۔(حاشية ابن عابدين 4 / 382، جواهر الإكليل 2 / 238 / 11، 2 / 233، نهاية المحتاج 8 / 281، المغني 9 / 175 176) (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد26، صفحہ101، مطبوعہ وزارتِ اوقاف، کویت)

اسی طرح فقہ شافعی کےدیگر کثیر ائمہ اور معتمد علمائے اعلام نے یہی بیان کیا،جیساکہ شافعی فقیہ امام الحرمین ابو المعالی، المعروف امام جوَینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 478ھ) نے، ”نهاية المطلب في دراية المذهب“، 19/ 23، ط: دار المنهاج میں،امام غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”الوسيط في المذهب“، 7/ 350، ط: دار السلام ، القاھرۃ میں لکھا۔

علامہ رافعی قزوینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات: 623ھ) نے ”العزیز شرح الوجیز المعروف ب الشرح الکبیر“، 13/ 15،ط:دار الکتب العلمیہ ، بیروت، میں،

علامہ عز الدین عبد العزیزبن عبد السلام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات:660ھ) نے ”الغایۃ فی اختصار النھایہ“، 8/79 ،ط:دار النور بیروت، میں،

سراج الدين عمر بن علی المعروف امام”ابن ملقن“رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سال وفات: 804ھ) نے ”عجالة المحتاج إلى توجيه المنهاج“، 4/1829، ط: دار الكتاب، إربد )میں،

ابو البقاء علامہ محمد بن موسى دَمِيری شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات: 808ھ) نے ”النجم الوهاج فی شرح المنهاج“، 10/ 302،ط:دار المنهاج، میں،

اور ”اسنى المطالب في شرح روض الطالب“ میں زين الدين امام زکریا انصاری السنیکی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ (سالِ وفات: 926ھ) نےلکھا۔بلکہ علامہ ابن حجر ہیتمی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے اس پر بعض سے اجماع ہونا نقل کیا ہے۔(کفّ الرعاع عن محرمات اللھو و السماع، ص 78، ط:مکتبۃ القران للطباعۃ والنشر، القاھرۃ)

دَفّ کے استعمال کے متعلق میں”الحاوی الکبیر“ میں ہے:

و اختلف أصحابنا هل ضرب الدف على النكاح عام في كل البلدان و الأزمان؟ فعم بعضهم لاطلاقه وخص بعضهم في البلدان التي لا يتناكر أهلها في المناكح، كالقرى والبوادي ويكره في غيرها، في مثل زماننا، لأنه قد عدل به إلى السخف والسفاهة

یعنی ہمارے (شوافع کے) اصحاب نے اس بات میں اختلاف کیاکہ کیا نکاح کے موقع پر ہر علاقہ اور ہر زمانے میں دف بجانے کی عام اجازت ہے؟ تو بعض نے حدیث کے مطلق ہونے کی وجہ سے عمومی اجازت دی اور بعض نے اس کی اجازت كو ان مخصوص شہروں کے ساتھ خاص کیا جن میں نکاح کے موقع پر اہل علاقہ اس کو بُرا نہیں سمجھتے،جیسے قریے اور دیہات وغیرہا، ان کے علاوہ جگہوں پر ہمارے زمانہ میں مکروہ ہے، کیونکہ اب یہ کام بے ہودگی اور بے وقوفانہ حرکتوں كی طرف چلا گیا ہے۔ (الحاوی الکبیر،جلد 17، صفحہ 192، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

”الدف“:…وقال الشافعية يجوز ضرب دف و استماعه لعرس لأنه صلى اللہ عليه و سلم أقر جويرات ضربن به حين بنى على الربيع بنت معوذ بن عفراء و قال لمن قالت: وفينا نبي يعلم ما في غد: دعي هذا وقولي بالذي كنت تقولين ،أي:من مدح بعض المقتولين ببدر، ويجوز لختان لما روي عن عمر رضي اللہ تعالى عنه أنه كان إذا سمع صوتا أو دفا بعث قال:ما هو؟ فإذا قالوا عرس أو ختان، صمت، و يجوز في غير العرس والختان مما هو سبب لاظهار السرور كولادة وعيد وقدوم غائب و شفاء مريض و إن كان فيه جلاجل لاطلاق الخبر، و هذا في الأصح عندهم لما روي أن النبي صلى اللہ عليه و سلم لما رجع من بعض مغازيه قالت له جارية سوداء: يا رسول اللہ إني كنت نذرت إن ردك اللہ صالحا أن أضرب بين يديك بالدف و أتغنى، فقال لها: إن كنت نذرت فاضربي، وإلا فلا ومقابل الأصح المنع لأثر عمر رضي اللہ تعالى عنه السابق، و استثنى البلقيني من محل الخلاف ضرب الدف في أمر مهم من قدوم عالم أو سلطان أو نحو ذلك، و قال بعض الشافعية: إن الدف يستحب في العرس والختان، وبه جزم البغوي في شرح السنة۔

مفہوم تمہید میں گزر چکا۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد 38، صفحہ170، مطبوعہ وزارتِ اوقاف، کویت)

دف میں جھانجھ نہ ہونے کی قید کو امام غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے”الوسيط فی المذهب“، 7/ 350، ط: دار السلام، القاھرۃ اور امام نووی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”روضة الطالبين و عمدة المفتين“، 11/ 228،ط:المكتب الاسلامي ، بيروت)میں ذکر کیا ہے۔

موسیقی و آلات موسیقی کے استعمال اور حلت و حرمت کے بیان پر علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شاندار تصنیف ”کفّ الرعاع عن محرمات اللھو والسماع“تحریر فرمائی ہے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9015

تاریخ اجراء: 22محرم الحرام 1446ھ/29 جولائی 2024ء