قاتل کی توبہ کا حکم

قاتل کی توبہ کے متعلق تفصیل

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کسی جھگڑے کی وجہ سے ایک شخص نے کسی کا قتل کر دیا، پھر مقتول کے ورثا نے رقم لے کر قتل معاف کر دیا، اور قاتل نے اللہ کی بارگاہ میں توبہ بھی کر لی تو کیا قاتل کی بخشش ہو جائے گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

یہ یادرہے کہ !مسلمان کا، جان بوجھ کرناحق قتل بہت سخت اورکبیرہ گناہ ہے، جس پر قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدآئی ہے، اوراس کے ساتھ تین حق متعلق ہیں: ایک اللہ تعالی کاحق، دوسرا مقتول کا حق، اورتیسرااس کے اولیاکاحق۔ اولیا کے معاف کردینے سے ان کاحق معاف ہوگیا اوراگراللہ تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ کی تواللہ تعالی کا حق بھی معاف ہوجائے گالیکن مقتول کاحق ابھی باقی ہے، جس کا قیامت میں مطالبہ ہوگا۔ البتہ! قاتل کوچاہیے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ کرتارہے، مقتول کے لیے بھی بخشش کی دعا وغیرہ کرتارہے اور یہ بھی دعا کرتا رہے کہ اللہ تعالی کل قیامت میں اپنے فضل سے مقتول کو راضی کر کے اس کے ساتھ صلح کروادے، اگرتوبہ سچی ہوئی توامید ہے کہ اللہ تبارک وتعالی قیامت میں مقتول کواپنے فضل سے راضی کرکے صلح کروادے گا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

(وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا)

ترجمہ کنزالایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہےکہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔ (القرآن، سورۃ النساء، پارہ5، آیت: 93)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لو أن أهل السماء والأرض اشتركوا في دم مؤمن لأكبهم الله في النار"

 ترجمہ: اگر زمین و آسمان والے کسی مومن کے خون (یعنی ناحق قتل) میں شریک ہو جائیں تو تعالیٰ ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (سنن الترمذی، جلد4، صفحہ 17، حدیث 1398، مطبوعہ : مصر)

رد المحتار میں ہے

”قال في تبيين المحارم: واعلم أن توبة القاتل لا تكون بالاستغفار والندامة فقط بل يتوقف على إرضاء أولياء المقتول فإن كان القتل عمدا لا بد أن يمكنهم من القصاص منه، فإن شاءوا قتلوه، وإن شاءوا عفوا عنه مجانا، فإن عفوا عنه كفته التوبة اهـ ملخصا ۔۔۔ أقول: والظاهر أن الظلم المتقدم لا يسقط بالتوبة لتعلق حق المقتول به، وأما ظلمه على نفسه بإقدامه على المعصية فيسقط بها تأمل“

 ترجمہ: تبیین المحارم میں فرمایا: جان لو کہ قاتل کی توبہ صرف استغفار اور شرمندگی سے نہیں ہوتی بلکہ مقتول کے اولیا کو راضی کرنے پر موقوف ہوتی ہے، پس اگر قتل عمد ہو تو ضروری ہے کہ وہ خود کوانہیں قصاص کے لئے پیش کرے، پھر اگر وہ چاہیں تو قتل کردیں، چاہیں تو  بغیر کسی بدلے کے معاف کر دیں، پس اگر انہوں نے معاف کر دیا تو اس کو توبہ کفایت کرے گی۔ اور میں کہتا ہوں کہ ظاہر یہ ہے کہ سابقہ ظلم توبہ سے ساقط نہیں ہو گا کیونکہ اس سے مقتول کا حق متعلق ہے، اور بہرحال گناہ پر اقدام کر کے اپنی جان پر ظلم کرنا تو وہ توبہ سے ساقط ہو جائے گا۔ مزیدغور کرو۔ (رد المحتار، جلد10، صفحہ192، مطبوعہ: کوئٹہ)

قاتل کی توبہ کے متعلق صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”ولی مقتول نے معاف کر دیا یہ صلح سے افضل ہے اور صلح قصاص سے افضل ہے اور معاف کرنے کی صورت میں  قاتل سے دنیا میں مطالبہ نہیں ہوسکتا ہے نہ اب قصاص لیا جاسکتا ہے نہ دیت لی جاسکتی ہے۔ رہا مواخذہ اخروی، اُس سے بری نہیں  ہوا، کیوں کہ قتل ناحق میں  تین حق اس کے ساتھ متعلق ہیں۔ ایک حق ا، دوسرا حق مقتول، تیسرا حق ولی مقتول، ولی کو اپنا حق معاف کرنے کا اختیار تھا سو اس نے معاف کر دیا مگر حق ا اور حق مقتول بدستور باقی ہیں۔ ولی کے معاف کرنے سے وہ معاف نہیں ہوئے۔۔۔ قاتل کی توبہ صحیح نہیں، جب تک وہ اپنے کو قصاص کے لیے پیش نہ کر دے۔ یعنی اولیائے مقتول کو جس طرح ہوسکے راضی کرے۔ خواہ وہ قصاص لے کر راضی ہوں  یا کچھ لے کر مصالحت کریں  یا بغیر کچھ لیے معاف کر دیں۔ اب وہ دنیا میں  بری ہوگیا اور معصیت پر اقدام کرنے کا جرم و ظلم یہ توبہ سے معاف ہو جائے گا۔ “ (بہار شریعت، جلد3، حصہ 17، صفحہ762، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"وما أما مطالبة المقتول القاتل يوم القيامة فإنه حق من حقوق الآدميين وهو لا يسقط بالتوبة فلا بد من أدائه وإلا فلا بد من المطالبة يوم القيامة، ولكن لا يلزم من وقوع المطالبة المجازاة، وقد يكون للقاتل أعمال صالحة تصرف إلى المقتول أو بعضها. ثم يفضل له أجر يدخل به الجنة، أو يعوض الله المقتول من فضله بما يشاء من قصور الجنة ونعيمها ورفع درجته ونحو ذلك، والله أعلم"

 ترجمہ: اور بہرحال مقتول کا قیامت کے دن قاتل سے مطالبہ کرنا، تو یہ آدمیوں کے حقوق میں سے ایک حق ہے اور وہ توبہ کے ساتھ ساقط نہیں ہو گا، پس اس کی ادائیگی ضروری ہے، ورنہ توقیامت کے دن مطالبہ ضرور ہو گا، لیکن مطالبہ کرنے سے سزادینا لازم نہیں آتا، کیونکہ ہوسکتاہے کہ قاتل کے نیک اعمال ہوں جوسارے یا بعض اعمال مقتول کو دے دئیے جائیں پھر اس کے لیے ایسااجر باقی رہے، جس کے سبب جنت میں چلا جائے یا اللہ تعالی مقتول کو اپنے فضل سے جنت کے محلات، اس کی نعمتوں، بلندی درجات اور اس کی مثل چیزوں میں سے جو چاہے، اس کا عوض دے دے گا، اور اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد18، صفحہ183، 184، مطبوعہ: بیروت)

فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

"وفي الحديث مشروعية التوبة من جميع الكبائر حتى من قتل الأنفس ويحمل على أن الله تعالى إذا قبل توبة القاتل تكفل برضا خصمه"

ترجمہ: اوراس حدیث شریف میں تمام کبیرہ گناہوں یہاں تک کے قتلِ نفس سے توبہ کی مشروعیت کا ثبوت ہے اور اس کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ جب قاتل کی توبہ قبول فرمائے گا تو وہ اس کے خصم (یعنی مقتول) کو راضی کرنے کواپنے ذمہ کرم پرلے لے گا۔ (فتح الباری لابن حجر، جلد6، صفحہ517، دار المعرفۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیبابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4187

تاریخ اجراء: 14ربیع الاول1447 ھ/08ستمبر 2520 ء