
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میری زوجہ کے پیٹ میں 4 مہینے کا بچہ ہے، الٹرا ساؤنڈ میں بچے کا پیر، سر وغیرہ درست نہیں ہے اور بچہ بھی زندہ ہے، ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ آپریشن سے نکلوا دیجئے۔ شرعی رہنمائی فرما دیجئے کہ کیا ہم اس بچے کو آپریشن کے ذریعے نکلوا سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
چار ماہ کے بچے میں جان پڑجاتی ہے، اوررپورٹ کے مطابق بھی وہ زندہ ہے توایسے بچے کوضائع کرنا، اسے قتل کرنا ہے، جوکہ سخت ناجائز و حرام کام ہے ۔اورالٹراساؤنڈکی رپورٹ کے مطابق جوبچے کے پیروغیرہ کامسئلہ سامنے آرہاہے تو اول تویہ یقینی نہیں، کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ الٹراساؤنڈ کی رپورٹ کچھ اوربتارہی ہوتی ہے لیکن بعدمیں جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے تواس میں وہ مسئلہ نہیں ہوتا اور اگر بالفرض رپورٹ درست بھی ہو توبقیہ جتنا عرصہ حمل کاباقی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس میں یہ مسئلہ درست ہوجائے، اور اگربالفرض اس عرصے میں درست نہ بھی ہو تو پھر بھی حمل ضائع کرنے کی اجازت نہیں، اسے اس مثال سے سمجھیے کہ! اگر کسی بچے کے پیداہونے کے بعداس کے پاؤں وغیرہ میں مسئلہ ہوجائے تواس وجہ سے اسے قتل کرنا، جائز نہیں ہوتا تو اسی طرح پیٹ میں جان پڑجانے کے بعد بھی پیر وغیرہ میں مسئلہ ہونے کی وجہ سےاسے قتل کرنا، جائز نہیں ہے۔
بخاری شریف میں حضرت زید بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث پاک مروی ہے
’’قال عبد اللہ حدثنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو الصادق المصدوق قال إن أحدکم یجمع خلقہ فی بطن أمہ أربعین یوما ثم یکون علقۃ مثل ذلک ثم یکون مضغۃ مثل ذلک ثم یبعث اللہ ملکا فیؤمر بأربع کلمات ویقال لہ اکتب عملہ ورزقہ وأجلہ وشقی أو سعید ثم ینفخ فیہ الروح‘‘
ترجمہ :حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بیان فرمایااور آپ صادق، مصدوق ہیں، ارشادفرمایابے شک تم میں سے ہر ایک کا مادہ خلقت اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رکھا جاتا ہے، پھر چالیس دن میں علقہ( جماہواخون) ہوجاتاہے، پھر اسی کی مثل( چالیس دن)میں گوشت کا لوتھڑاہوجاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کوبھیجتاہےاور اسے چارباتو ں کا حکم دیتاہے، اسے کہا جاتا ہے کہ اس کاعمل، رزق، عمر، اور شقی ہوگا یا سعید لکھ دے، پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، ج01، ص456، مطبوعہ: کراچی)
اس حدیث پاک کے تحت کلام کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ نے عمدۃ القاری میں فرمایا:
” وقت نفخ الروح عقيب الأربعين الثالثة حتى يكمل له أربعة أشهر“
ترجمہ:روح پھونکے جانے کا وقت تیسرے "چالیس دنوں"کے بعد ہے جب اس کے چار مہینے مکمل ہو جائیں۔ (عمدۃ القاری، ج 15، ص 131، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے
”اتفق العلماء على أن نفخ الروح لا يكون إلا بعد أربعة أشهر أي عقبها كما صرح به جماعة“
ترجمہ: علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ روح چار مہینے کے بعد پھونکی جاتی ہے یعنی چار مہینے کے فوراً بعد جیسا کہ ایک جماعت نے اس کی تصریح کی ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، ج 1، ص 302، دار الفکر، بیروت)
امامِ اہلِ سنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”جان پڑ جانے کے بعد اسقاطِ حمل حرام ہے اور ایسا کرنے والا گویا قاتل ہے اور جان پڑنے سے پہلے اگر کوئی ضرورت ہے، تو حرج نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ207، رضافاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4166
تاریخ اجراء: 02 ربیع الاول1447 ھ/27اگست 2520 ء