
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
جو بندہ رشوت یا سود لیتا ہے تو کیا وہ عبادت نہ کرے؟ کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو بندہ حرام کھاتا ہے، اس کے چالیس دن کے عمل قبول نہیں ہوتے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
احادیثِ طیبہ میں یہ مضمون موجود ہے کہ جو بندہ حرام کا ایک لقمہ کھاتا ہے، تو چالیس راتوں تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان کوحرام کھانے پر (دوسری سزاکے ساتھ ساتھ) یہ سزابھی ملتی ہے کہ اتنے دنوں کی نمازوں کومحنت و مشقت سے اداکرنے کے باوجود وہ ان کے اجر و ثواب سے محروم رہتا ہے، لہذا اسے چاہیے کہ حرام کھانا ترک کردے تاکہ دوسری سزا سے بھی بچے اور نمازوں پر ثواب بھی حاصل ہو، یہ مطلب نہیں کہ اب بندے پر وہ نمازیں فرض ہی نہ رہیں، بلکہ اب بھی اس پر نمازیں فرض ہی ہوں گی، اور اگر تمام شرائط و فرائض کے ساتھ ان عبادات کو ادا کرے گا تو وہ ادا بھی ہوجائیں گی، البتہ! ایسا حرام کمانے والا شخص نماز کی چاشنی، اصل روح اور اجر و ثواب سے محروم ہے۔
پس وعید سنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص اس طرح کی وعید سن کر اس برے عمل سے نجات حاصل کرے نہ یہ کہ برے عمل کی وجہ سے عبادات ہی چھوڑ دے، لہٰذا جو رزقِ حرام میں مبتلا ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ توبہ کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہوئے، حرام کمائی سے چھٹکارا حاصل کرے اور ضروری عبادات کو ادا کرے۔
چنانچہ حرام لقمہ کھانے کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے
"من أكل لقمة من حرام لم تقبل له صلاة أربعين ليلة"
ترجمہ: جس نے حرام کا لقمہ کھایا، چالیس راتوں تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ (کنز العمال، جلد 4، صفحہ 15، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
اسی طرح کی وعید پر مشتمل ایک حدیثِ پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
”قال النووي: وأما عدم قبول صلاته فمعناه أنه لا ثواب له فيها، وإن كانت مجزئة في سقوط الفرض عنه، و لا يحتاج معها إلى إعادة“
ترجمہ: امام نووی فرماتے ہیں کہ اس کی نماز کے قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے اس نماز میں ثواب نہیں ہے، اگرچہ اس کی طرف سے فرض کے سکوت میں کافی ہوجائے گی اور اس کے پڑھ لینے سے کسی اعادہ کی حاجت نہیں ہوگی۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 7، صفحہ 2905، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
مرآۃ المناجیح میں ہے "یعنی اس کی یہ نمازیں ادا ہوجائیں گی اللہ کے ہاں ان کا ثواب نہ ملے گا جیسے غصب شدہ زمین میں نماز کہ اگرچہ ادا تو ہوجاتی ہے مگر اس پر ثواب نہیں ملتا لہذا ان نمازوں کا لوٹانا اس پر لازم نہیں۔" (مرآۃ المناجیح، ج 6، ص 270، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّممجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3865
تاریخ اجراء: 26 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 24 مئی 2025 ء