
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کیا اس طرح کی کوئی حدیث پاک ہے کہ إنَّ الزِّنَا دَيْنٌ یعنی بدکاری ایک قرض ہے۔ شرعی رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
إنَّ الزِّنَا دَيْنٌ یعنی بدکاری ایک قرض ہے۔ یہ الفاظ کسی حدیث پاک کے نہیں۔ البتہ یہ ایک عربی اشعار کے الفاظ ہیں جو کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہیں اور آپ کے دیوان بنام ’’دیوان الامام الشافعی‘‘ میں موجود ہیں۔ مکمل عربی شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’زنا ایک قرض ہے اگر تو کسی کے ساتھ اس برائی کا مرتکب ہوا، تو اس قرض کی ادائیگی تیرے گھر والوں کے ساتھ پوری ہوگی‘‘۔
در اصل یہ شعر ایک حدیث پاک کی شرح ہے، حدیث مبارکہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے مَردوں سے ارشاد فرمایا کہ تم عفت و پاکدامنی اختیار کرو، تمہاری عورتیں پاکدامن رہیں گی۔ اس حدیث کی شرح میں بیان فرمایا گیا کہ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اگر ایک مرد، دوسروں کی عورتوں کے معاملے میں پاکدامنی اختیار کرے گا تو یہ خود اس کی عورتوں کی پاکدامنی اور پاکیزگی کا سبب ہوگا، اور اللہ عزوجل اس کی بیوی، بہن، ماں، بیٹی کو بھی فحاشی اور برائی سے محفوظ رکھے گا، لیکن اگر ایک مرد، دوسروں کی عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلق قائم کرے گا، تو اللہ عزوجل اس جرم کی دنیا میں اُسے یہ سزا دے گا کہ اس کی عورتیں بھی اس برائی سے محفوظ نہ رہیں گی اور کوئی اجنبی مرد اس کے گھر کی عورتوں کے ساتھ بھی ناجائز تعلق قائم کرلے گا، اور یوں اس کے ساتھ ’’جیسا جرم ویسی سزا‘‘ والامعاملہ ہوگا۔ یا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مرد اپنی خواہشات کو جائز و حلال طریقے سے پوری کرنے کی بجائے، ناجائز ذرائع سے پورا کرتا ہے، تو اس طرح وہ اپنی شریک حیات کی ضروریات کو پورا کرنے پر خاص توجہ نہیں دیتاجس کے نتیجے میں بہت ممکن ہوتا ہے کہ اس کی عورت ذہنی انتشار کا شکار ہوجائے اور وہ بھی اپنی ضروریات کو کسی ناجائز ذرائع سے پوری کرلے، لیکن جب ایک مرد اپنی بیوی کے حقوق کی مکمل ادائیگی کرتا ہے، تو اس کی بیوی ذہنی طور پر سکون میں رہتی ہے اور یوں وہ برائیوں سے محفوظ رہتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مرد کی فحاشی کے سبب اس کے گھر کی عورتوں کا فحاشی میں مبتلا ہوجا نا، مرد کی برائی کی سزا اور اس کی برائی کے اثرات کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں تنبیہ ہے کہ مرد کے بُرے اعمال اور بُرے کردار کا اثر صرف اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتا،بلکہ اس کے گھر والوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
’’دیوان الامام الشافعی‘‘ قافیۃ المیم میں ہے:
عفوا تعفُّ نساؤكم في المحرم وتجنبوا ما لا يليق بمسلم
إن الزنا دين فإن أقرضته كان الوفا من أهل بيتك فاعلم
ترجمہ:تم پاکدامنی اختیار کرو،تمہاری عورتیں بھی حرام چیزوں میں پاکدامن رہیں گی، اور ان امور سے بچوجو مسلمان کی شان کے لائق نہیں۔ بیشک زنا ایک قرض ہے، اگر تو کسی کے ساتھ زنا کا مرتکب ہوا، تو جان لے کہ اس قرض کی ادائیگی تیرے گھر والوں کے ساتھ پوری ہوگی۔ (دیوان الامام الشافعی، صفحہ 108، دار المعرفۃ، بیروت)
المستدرک للحاکم، المعجم الاوسط، کنز العمال، حلیۃ الاولیاء کی حدیث مبارکہ ہے:
و اللفظ للاول: عن قتادة، عن أبي رافع، عن أبي هريرة، رضي اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلى الله عليه و سلم: «عفوا عن نساء الناس تعف نساؤكم و بروا آباءكم تبركم أبناؤكم و من أتاه أخوه متنصلا فليقبل ذلك منه محقا كان أو مبطلا فإن لم يفعل لم يرد علي الحوض»
ترجمہ: حضرت قتادہ سے روایت ہے،وہ حضرت ابو رافع سے روایت کرتے ہیں اور وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کی عورتوں کے بارے میں پاکدامنی اختیار کرو، تمہاری عورتیں بھی پاکدامن رہیں گی۔ اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو، تمہارے بیٹے بھی تمہارے ساتھ نیکی کریں گے۔ اور جس کے پاس اس کا (مسلمان) بھائی معذرت پیش کرے، چاہے وہ حق پر ہو یا غلطی پر، تو اُسے چاہیے کہ اُس کی معذرت قبول کرے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا، تو وہ میرے پاس حوض (کوثر) پر نہیں آئے گا۔ (المستدرک علی الصحیحین، جلد 4، صفحہ 170، رقم الحدیث: 7258، دار الكتب العلمية، بيروت)
التنویر شرح جامع الصغیر میں ہے:
(عفوا) بضم فائه عن الفاحشة و مقدماتها. (تعف نساؤكم) عنها كأنه يجعل اللہ عقوبة الرجل على عدم العفة عدم عفة أهله ويكون شؤما لحق أهله بسيئته، أو لأنه إذا عف يوفر على قضاء حاجة أهله فأعفهم و إن لم يعف لم يقض حاجتها فاحتاجت إلى الفاحشة
ترجمہ: فاء کے پیش کے ساتھ یعنی اپنے آپ کو فحاشی اور اس کے مقدمات سے بچاؤ۔ تمہاری عورتیں بھی فحاشی سے بچی رہیں گی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مرد کی بے عفتی کی سزا اس کے اہل خانہ کی بے عفتی قرار دی، اور یہ اس کی برائی کا اثر ہوگا جو اس کے گھر والوں کو پہنچے گا۔ یا اس لیے کہ جب مرد پاکدامن رہتا ہے تو وہ اپنی عورت کی ضروریات پوری کرتا ہے، جس سے وہ پاکدامن رہتی ہے، لیکن اگر وہ خود پاکدامن نہیں رہتا، تو وہ اس کی ضروریات پوری نہیں کرتا، جس کی وجہ سے وہ برائی کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ (التنویر شرح الجامع الصغیر، جلد 7، صفحہ 244، مطبوعہ ریاض)
اسی میں ایک دوسرے مقام پر ہے:
(و عفوا) عما لا يحل من التعرض للنساء (تعف نساؤكم) أي تكون عصمتكم عن نساء عباد اللہ سبباً لعصمة نسائكم عن العباد. نكتة: قال الغزالي: كان رجل صالح له زوجة صالحة و كان تاجراً فاتفق في بعض الأيام أنه جاءته امرأة تشاوره في شيء فاستحسن يدها فغمزها، ثم أنه دخل منزله فقالت له زوجته: ما الذي أحدثت في يومك؟ قال: لم أحدث شيئاً، قالت: اتق اللہ و اصدق فحدثها ثم قال: ما الذي دعاك إلى السؤال قالت: إن فلانا السقاء يدخل علينا بالماء نحوًا من عشر سنين لا يرفع له طرفاً و أنه دخل اليوم فغمز يدي فقلت إنه لأمر حدث منك
ترجمہ: اور پاکدامن رہویعنی ان چیزوں سے کہ جو مردوں کیلئے عورتوں سے متعلق حلال نہیں، تمہاری عورتیں پاکدامن رہیں گی یعنی تمہارا اجنبی عورتوں سے پاکدامن رہنا، تمہاری عورتوں کے اجنبی مردوں سے پاکدامن رہنے کا سبب ہوگا۔ نکتہ: امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک نیک شخص تھا جس کی بیوی بھی نیک تھی، اور وہ تاجر تھا۔ اتفاق سے ایک دن ایک عورت اس سے کسی معاملے میں مشورہ کرنے آئی، اس آدمی کو اس کا ہاتھ اچھا لگاتو اس نے اس اجنبی عور ت کے ہاتھ کو دبایا۔ پھر جب وہ اپنے گھر آیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: آج تم نے کیا کیا؟ اس نے کہا: کچھ نہیں۔ بیوی نے کہا: اللہ سے ڈرو اور سچ بتاؤ۔ تو اس نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ پھر اس آدمی نے بیوی سے پوچھا: تم نے یہ کیوں پوچھا؟ بیوی نے جواب دیا: ایک پانی والا ہے جو دس سال سے ہمارے گھر پانی لاتا ہے جس نے کبھی اس (عورت) کی طرف نظر نہیں اٹھائی، (لیکن) آج وہ آیا اور اس نے میرے ہاتھ کو دبایا تو میں سمجھ گئی کہ یہ ضرور کوئی ایسا معاملہ ہے جو تم سے واقع ہوا ہے۔ (التنویر شرح الجامع الصغیر، جلد 4، صفحہ 543، مطبوعہ ریاض)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-771
تاریخ اجراء: 05 ذی الحجۃ الحرام 1446ھ / 02 جون 2025ء