
دار الافتاء اھلسنت ( دعوت اسلامی )
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سجدہ تعظیمی کی شرعی حیثیت کیاہے؟شرعاًجائزہے یانہیں؟قرآن وسنت کی روشنی میں بیان فرمائیں۔
سائل:محمدتحسین عطاری(سیکٹر03،نارتھ کراچی)
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سجدہ کی دوقسمیں ہیں: (1) سجدۂ عبادت (2) سجدۂ تعظیمی۔
سجدۂ عبادت اللہ کاحق ہے، جوغیرخداکےلیےکسی بھی شریعت میں لمحہ بھرکے لیے بھی جائزنہیں ہوا۔ اگر غیر خدا کو سجدہ عبادت کسی نے کیا، تو واضح طور پر کافر ہوجائے گا، جبکہ سجدۂ تعظیمی(یعنی اللہ کی طرف سے کسی کوملنے والی عظمت کے اظہارکے لیےسجدہ کرنا) پچھلی شریعتوں میں جائزتھا۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کوفرشتوں نے اورحضرت یوسف علیہ السلام کو آپ کے بھائیوں اورآپ کےوالدین نے سجدہ کیا، لیکن ہماری شریعت میں یہ سجدۂ تعظیمی منسوخ ہوچکاہے، لہذاشریعت محمدیہ میں تاقیامت غیر خدا کے لیے سجدۂ تعظیمی سخت ناجائزوحرام ہےاور تعظیماً سجدہ کرنے والاسخت گنہگار اور عذاب نار کا حقدار ہوگا، ہاں کافر نہ ہوگا، کسی قسم کا حکم کفر اس پر عائد نہ ہوگا۔
تفسیرمظہری وتفسیردرمنثوروغیرہ میں ہے:
”أن رجلا قال:يا رسول الله نسلم عليك كما يسلم بعضنا على بعض أفلا نسجد لك قال: لا ولكن أكرموا نبيكم واعرفوا الحق لأهله فانه لا ينبغي أن يسجد لأحد من دون الله“
یعنی ایک صحابی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم! ہم حضور کو بھی ایسا ہی سلام کرتے ہیں، جیسا کہ آپس میں۔ کیا ہم حضور کو سجدہ نہ کریں؟ فرمایا: نہیں، بلکہ اپنے نبی کی تعظیم کرو اور سجدہ خاص حق خدا کا ہے۔ اسے اسی کے لئے رکھو اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں۔ (الدر المنثور، ج 02، ص 250، دار الفکر، بیروت)
مشکوٰۃالمصابیح میں بحوالہ ترمذی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
”لو كنت آمر أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها“
یعنی اگرمیں کسی کو کسی (مخلوق) کے لئے سجدہ کرنے کاحکم دیتاتوعورت کوضرورحکم دیتاکہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، ج 02، ص 972، المکتب الاسلامی، بیروت)
اس حدیث کے تحت حضرت ملاعلی قاری علیہ رحمۃ الباری تحریرفرماتے ہیں:
”إن السجدة لا تحل لغير الله“
یعنی غیراللہ کے لئے سجدہ حلال نہیں ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب النکاح، ج 06، ص 369، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
”من سجد للسلطان على وجه التحية أو قبل الأرض بين يديه لا يكفر و لكن يأثم لارتكابه الكبيرة هو المختار۔ قال الفقيه أبو جعفر- رحمه الله تعالى – و إن سجد للسلطان بنية العبادة فقد كفر“
یعنی جس نے کسی حاکم کو بطور تعظیم سجدہ کیایااس کےسامنے زمین چومی وہ کافر نہ ہوگا ہاں گناہگارضرور ہے کیونکہ ا س نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ یہی مختارہے۔ امام ابوجعفرعلیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ اگرحاکم کو سجدہ بطور عبادت کیا تو کافر ہوگا۔ (ملتقطااز الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراھیۃ، ج 05، ص 369، مطبوعہ کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”سجدہ تحیت یعنی ملاقات کے وقت بطورِ اکرام کسی کو سجدہ کرنا حرام ہے اور اگر بقصد عبادت ہو تو سجدہ کرنے والا کافر ہے کہ غیر خدا کی عبادت کفر ہے۔)“بہارِ شریعت، ج 03، ص 473، مکتبۃ المدینہ، کراچی(
تفصیل کے لیےمجدداعظم امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن کےرسالہ "الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ" کا مطالعہ کیجیے۔ اس میں آپ علیہ الرحمۃنے ایک آیت کریمہ، چالیس احادیث اورڈیڑھ سوفقہائے کرام کے ارشادات سےسجدۂ تعظیمی کی حرمت کوبیان فرمایاہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری
فتوی نمبر: Pin-6048
تاریخ اجراء: 09 رمضان المبارک 1440 ھ/ 15 مئی 2019 ء