سرکاری مال دھوکے سے مسجد میں لگانے کا شرعی حکم

گورنمنٹ کا مال دھوکے سے حاصل کرکے مسجد میں لگانے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میرا ایک مقتدی سرکاری گاڑی (ایمبولینس) چلاتاہے، اس کی بیٹری کچھ خراب ہوئی ہے، جو کہ گاڑی کا کام نہیں دے رہی، اب میرا مقتدی بیٹری مسجد کے لیے فری دے رہا ہے جبکہ ان کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی بیٹری کو وہ جمع کرتے ہیں اور گاڑی کے لیے نئی بیٹری لیتے ہیں، اس نے کہا کہ آپ مجھے کہیں سے ایک پرانی سستی بیٹری خرید کردے دیں تاکہ میں اس کو دفترمیں جمع کرلوں۔ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس بیٹری کو مسجد میں استعمال کرسکتے ہیں اور اس کے بدلے سستی بیٹری خرید کردے سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

دریافت کی گئی صورت میں سرکاری گاڑی کی بیڑی لے کر مسجد میں لگانا اور اس کی جگہ پرانی سستی بیٹری دفتر میں جمع کروانا جائز نہیں ہے کہ یہ دھوکے اور جھوٹ کے ساتھ گورنمنٹ کا مال حاصل کرکے اس کو مسجد میں دینا ہے کہ جو کہ ناجائز و گناہ ہے۔

صحیح مسلم میں ہے

"من غش فليس مني"

ترجمہ: جو دھوکہ دےوہ مجھ سے نہیں۔ (صحیح مسلم، ج 1، ص 99،حدیث 102،دار إحياء التراث العربي، بيروت)

علامہ عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ( متوفی 1031 ھ) فیض القدیر میں فرماتے ہیں:

"الغش ستر حال الشیء"

ترجمہ: دھوکہ کا مطلب ہے" کسی چیز کی اصلی حالت کو چھپانا۔ (فیض القدیر، ج 6، ص 185، مطبوعہ: مصر)

دھوکہ کے متعلق المحیط البرھانی میں ہے

”الغدر حرام‘‘

یعنی دھوکہ حرام ہے۔ (المحیط البرھانی، ج 2، ص 363،دار الكتب العلمية، بيروت)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ’’غَدَر و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے، مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 14، ص 139، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3934

تاریخ اجراء: 21 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ/ 18 جون 2025 ء