توبہ کے ارادے سے گناہ کرنا کفر تو نہیں؟

کیا توبہ کے ارادے سے گناہ کرنا کفر ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ میں نے سنا ہے کہ توبہ کے ارادے سے گناہ کرنا یعنی یہ سوچ کر گناہ کرنا کہ بعد میں اس گناہ سے توبہ کرلوں گا، کفر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ کفر ہے؟ کیا ایسا کرنے سے بندہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

توبہ کے ارادے سے گناہ کرنا یعنی گناہ کرتے وقت ہی مستقبل میں اس گناہ سے توبہ کرنے کا فی الحال عزم کرلینا کفر نہیں۔ البتہ اگر کوئی گناہ پر اللہ کی پکڑ اور عذاب سے بالکل بے خوف ہوجائے یا پھر گناہ کو ہلکا جان کر ایسا کرے تو اب بعض نے اسے کفر قرار دیا، لہٰذا ایسی صورت میں توبہ اور تجدید ایمان کا حکم ہوگا۔

اس کی تفصیل مع الدلائل درج ذیل ہے:

گناہ کرنے سے پہلے ہی دل میں آئندہ توبہ کا عزم کرلینا فی نفسہٖ کفر نہیں، بلکہ مومن ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب نفس کے ہاتھوں مغلوب ہو کر گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگتا ہے، تو ارتکاب گناہ سے پہلے ہی، گناہ کے بعد توبہ کا عزم کرلیتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ قرآن پاک میں موجود ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، تو گناہ کے ارادے کے وقت ہی انہوں نے بعد میں اس سے توبہ کرنے کا ارادہ کرلیا، سورهٔ یوسف میں اَخوانِ یوسف (علیہ السلام) کا یہ واقعہ اللہ رب العزت نے بلا نکیر ذکر فرمایا:

(اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا یَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِیْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ)

ترجمۂ کنز العرفان:یوسف کو مار ڈالو یا کہیں زمین میں پھینک آؤ تاکہ تمہارے باپ کاچہرہ تمہاری طرف ہی رہے اور اس کے بعد تم پھر نیک ہوجانا۔ (پارہ 12، سورۂ یوسف، آیت 9)

تفسیر کبیر و خازن میں ہے،

و النص للخازن: قوما صالحين يعني: تائبين فتوبوا إلى اللہ يعف عنكم فتكونوا قوما صالحين و ذلك أنهم لما علموا أن الذي عزموا عليه من الذنوب و الكبائر قالوا نتوب إلى اللہ من هذا الفعل و نكون من الصالحين في المستقبل

ترجمہ: نیک ہوجانا یعنی توبہ کرنے والے ہوجانا، پھر تم اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرلینا اللہ تمہیں معاف کردے گا تو تم نیک ہوجاؤ گے، ایسا اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ انہوں نے جن اشیاء کے ارتکاب کا عزم کیا ہے،وہ کبیرہ گناہ ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہم مستقبل میں اس فعل سے توبہ کر لیں گے اور نیک بن جائیں گے۔ (تفسير الخازن، ج 2، ص 514، دار الکتب العلمیۃ - التفسير الكبير، ج 18، ص 424،دار احیاء التراث العربی)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

و تكونوا من بعده قوما صالحين فأضمروا التوبة قبل الذنب

ترجمہ: اس گناہ کے بعد نیک بن جانا، تو ان لوگوں نے گناہ سے قبل توبہ کا ارادہ کرلیا۔ (تفسير ابن كثير، ج 4، ص 319،دار الکتب العلمیۃ)

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

أي تحدثوا توبة بعد ذلك فيقبلها اللہ منكم، و في هذا دليل على أن توبة القاتل مقبولة، لأن اللہ تعالى لم ينكر هذا القول منهم

ترجمہ: یعنی اس کے بعد توبہ کرلینا تو اللہ تمہاری توبہ قبول کرلے گا، اس میں دلیل ہے کہ قاتل کی توبہ مقبول ہوتی ہے،کیونکہ اللہ رب العزت نے ان کے اس قول کا انکار نہیں فرمایا۔ (الجامع لاحکام القرآن، ج 9، ص 131، دار الكتب المصرية، القاهرة)

عارف باللّٰہ علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ ”روح البیان“ اور علامہ ابو لیث سمرقندی علیہ الرحمۃ ”تفسیر بحر العلوم“ میں لکھتے ہیں،

و النص للآخر: و تكونوا من بعد هلاكه قوماً تائبين إلى اللہ تعالى، و قال بعض الحكماء: هكذا يكون المؤمن، يهيئ أمر التوبة قبل المعصية

ترجمہ: تم یوسف (علیہ السلام) کے قتل کے بعد اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنے والوں میں سے ہوجانا، بعض حکماء نے فرمایا: مومن ایسا ہی ہوتا ہے، گناہ سے قبل توبہ کا تہیہ کرلیتا ہے۔ (تفسير السمرقندي بحر العلوم، ج 2، ص 181 -روح البيان، ج 4، ص 219، دار الفکر، بیروت)

ہاں! اگر توبہ کے ارادے سے گناہ کرنے میں اللہ رب العزت کی پکڑ اور خفیہ تدبیر سے بے خوفی و عذاب سے امان پر جزم ہو تو اسے کفر کہا گیا ہے، جیسا کہ نور العرفان میں ہے: ”توبہ کے ارادے سے گناہ کرناکُفر ہے کہ یہ اللہ پر امن ہے۔“ (نور العرفان، صفحہ 376، مطبوعہ پیر بھائی کمپنی، لاہور)

یونہی شرح فقہ الاکبر اور مراقی الفلاح میں امن من مکر اللہ کو کفر قرار دیا۔ شرح فقہ الاکبر میں ہے:

الأمن من عقوبتہ کفر

ترجمہ: اللہ کی پکڑ سے امن کفر ہے۔ (شرح الفقہ الاکبر، صفحہ 149، مطبوعہ کراچی)

مراقی الفلاح میں ہے:

فان أمن المکر کفر

ترجمہ: اللہ کی خفیہ تدبیر سے امن کفر ہے۔

بعض نے تو اسے کفر حقیقی قرار دیا، لیکن دیگر نے اسے

منجر الی الکفر

کہا کہ ایسا کرتے رہنے سے انسان گناہوں میں ایسا منہمک ہوتا ہے کہ یہ چیز اسے کفر کی دہلیز پر لاکھڑا کرتی ہے،چنانچہ علامہ طحطاوی علیہ الرحمۃ مراقی الفلاح کی مذکورہ بالا عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں:

(فان أمن المکر) و أمن المکر اطمئنان القلب بحیث یجزم بالنجاۃ (کفر) حملہ بعضھم علی الحقیقۃ و بعضھم قال معناہ أنہ یوصل الیہ بسبب استرسالہ فی المعاصی قال تعالٰی:فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ

ترجمہ: (اللہ کی خفیہ تدبیر سے امن ) خفیہ تدبیر سے امن دل کا مطمئن ہونا ہے یوں کہ عذاب سے نجات پر جزم کرے (کفر ہے) بعض نے اسے حقیقتِ کفر پر محمول کیا اور بعض نے کہا اس کا معنٰی یہ ہے کہ یہ امن کفر تک پہنچاتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بندہ گناہوں میں ڈوب جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں۔“ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 380، دار الکتب العلمیۃ)

یونہی توبہ کے ارادے سے گناہ میں اگر گناہوں کو ہلکا جاننے کا پہلو موجود ہو،تو اب اس صورت میں گناہ کو ہلکا جاننے کی وجہ سےیہ کفر ہوگا۔ شرح فقہ الاکبرمیں ہے:

إن استحلال المعصیة إذا ثبت کونھا معصیةً بدلالة قطعیة و کذا الاستھانة بھا کفر بأن یعدھا ھنیئةً سھلةً و یرتکبھا من غیر مبالاة بھا و یجریھا مجری المباحات في ارتکابھا

ترجمہ: کسی گناہ کو حلال سمجھنا جو کہ دلالتِ قطعیہ سے گناہ ثابت ہو، اسی طرح گناہ کوہلکا جاننا، یعنی اس کو آسان اور معمولی سمجھنا کفر ہے، اس طرح کہ وہ اس کو بے فکر ہو کر اور بغیر کسی پریشانی کے کرتا پھرے، ایسے جیسےوہ مباح کام کرتا ہے۔ (شرح فقہ الأکبر لملا علي قاري، ص 423، دار البشائر الاسلامیہ)

بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے:

و استخفاف الصغيرة كفر إذا ثبت بقطعي

ترجمہ: صغیرہ گناہ کو ہلکا جاننا کفر ہے جبکہ (اس کا گناہ ہونا) قطعی دلیل سے ثابت ہو۔ ( بريقة محمودية شرح طریقۃ المحمدية، ج 3، ص 139، مطبعۃ الحلبی)

شرح العقائد النسفیہ میں ہے:

(استحلال المعصیتۃ) صغیرۃ کانت أو کبیرۃ (کفر) اذا ثبت کونھا معصیۃ بدلیل قطعی و قد علم ذلک فی ما سبق (و الاستھانۃ بھا کفر)

ترجمہ: گناہ کو حلال جاننا، چاہے وہ کبیرہ ہو یا صغیرہ، کفر ہے، جبکہ اس کا کفر ہونا دلیلِ قطعی سےثابت ہو، جیسا کہ (قطعی ہونے کی تفصیل) پچھلے بیان میں معلوم ہوچکی، اور گناہ کو ہلکا جاننا (بھی) کفر ہے۔

(و الاستھانۃ بھا)

کے تحت نبراس میں ہے:

أی بالمعصیۃ، والاستھانۃ: آسان دانستن

ترجمہ: یعنی گناہ کو آسان سمجھنا۔ (شرح العقائد النسفیۃ مع شرحہ النبراس، ص 543، 544، مطبوعہ کراچی)

امام اہل سنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”گناہ ہونے میں قطعی اور غیر قطعی ہونے کا فرق نہیں، گناہ اگر چہ صغیرہ ہوں، اسے ہلکاجاننا قطعی حرام ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 9، ص 646، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

عذابِ الہٰی سے اعتقادی بے خوفی یا اسی اعتبار سے گناہ کو ہلکا جاننے کی صورت میں شخص مذکورپر توبہ و تجدید ایمان فرض ہے اور شادی شدہ ہو،تو تجدید نکاح بھی کرے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0495

تاریخ اجراء: 20 رجب المرجب 1446ھ / 21 جنوری 2025ء