
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میرا سوال یہ ہے کہ والدین وغیرہ کے کہنے پر رشتہ داروں سے قطع تعلقی کرنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
دینِ اسلام نے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، اور قطع تعلقی کرنے سے منع فرمایا ہے، لہذا جب قطع تعلقی کرنا جائز نہیں ہے تو اس معاملہ میں کسی کی اطاعت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ اصول ہے کہ جس کام میں خالق کی نافرمانی ہو، اس میں کسی مخلوق کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ والدین ہی ہوں، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر والدین وغیرہ بلا اجازتِ شرعی قطع تعلقی کا حکم دیں تو اولادوغیرہ پر لازم ہے کہ ان کی اس بات پر عمل نہ کرے، بلکہ حکمِ شریعت پر عمل کرے اور قطع تعلقی نہ کرے۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
لا یدخل الجنۃ قاطع
ترجمہ: قطع تعلقی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح البخاری، جلد 5، صفحہ 2231، حدیث: 5638، دار ابن کثیر، دمشق)
مذكوره حديثِ مبارکہ کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے
”قال النووي "قد سبق نظائره مما حمل تارة على من يستحل القطعة بلا سبب، و لا شبهة مع علمه بتحريمها، وأخرى لا يدخلها مع السابقين. " قلت: و أخرى لا يدخلها مع الناجين من العذاب“
ترجمہ: امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس کی مثالیں گزرچکی کہ اس حدیثِ مبارکہ کو اس شخص پر محمول کیا جائے گا جو بغیر کسی وجہ کے قطع رحمی کو حلال سمجھتا ہو، اور قطع رحمی کے حرام ہونے کے علم ہونے میں بھی اس کو کوئی شبہہ بھی نہ ہو، دوسری تاویل یہ ہوگی کہ قطع رحمی کرنے والا سبقت لے جانے والوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا، ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میں کہتا ہوں اس کے علاوہ ایک اور تاویل یہ ہوگی کہ قطع رحمی کرنے والا عذاب سے نجات پانے والوں کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 7، صفحہ 3086، دار الفکر، بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے
قطع الرحم حرام
ترجمہ: قطع رحم حرام ہے۔(بدائع الصنائع، جلد 4، صفحہ 48، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
لا طاعۃ فی المعصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف
ترجمہ: اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں، بلکہ مخلوق کی اطاعت تو فقط بھلائی والے کاموں میں ہی جائز ہے۔ (صحیح البخاری، جلد 6، صفحہ 2649، حدیث: 6830، دار ابن كثير، دمشق)
فتاوی رضویہ میں ہے”اللہ عزوجل کی معصیت میں کسی کا اتباع درست نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 188، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: شرعِ مطہر نے ہر ایک کے حقوق مقرر کردئیے ہیں، جن کا پورا کرنا لازم ہےاور خود شرع کے بھی حقوق ہیں جو سب پر مقدم ہیں۔۔۔ جس کو شرع مطہر نے ناجائز قرار دیا ہے اس میں اطاعت نہیں کہ یہ حقِ شرع ہے اور کسی کی اطاعت میں احکامِ شرع کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی کہ معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں ہے۔ حدیث میں ہے:
لا طاعۃ للمخلوق فی معصیۃ الخالق
ترجمہ: خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ (فتاوٰی امجدیہ، جلد 4، صفحہ 198، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4071
تاریخ اجراء: 05 صفر المظفر 1447ھ/ 31 جولائی 2025ء