Maan ka Ek Beti Par Sakhti Baqion Par Shafqat Karna Kaisa

ماں کا ایک بیٹی سے سخت رویہ بقیہ پر شفقتیں

مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1935

تاریخ اجراء:28ربیع الاوّل1446ھ/03اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر ماں ایک بیٹی سے پیار نہ کرے، سخت رویہ رکھے، جبکہ باقی بیٹیوں سے پیار و محبت ہے، تو ماں  پر کیا حکم ہے؟ اگر بیٹی بھی   ماں سے  سخت لہجے میں غصہ میں بات کرلے تو کیا مواخذہ ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   والدین کو چاہیئے کہ وہ ساری اولاد کے ساتھ شفقت کرے، سب میں برابری رکھے،  یہی اسلامی تعلیمات ہیں، تاہم بسا اوقات اولاد  یہ سمجھ رہی ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ والدین محبت نہیں کرتے اور انہیں نظر انداز کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا عمومی طور پر والدین کیلئے سب بچے عزیز ہوتے ہیں اور سب کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔  اگرچہ بعض چیزوں میں ان کی  طرف سے بچوں پر سختی بھی ہوتی ہے اور  انہیں ڈانٹ بھی دیتے ہیں یا ان کی کسی غلطی کی وجہ سے ان کی بظاہر  ناراضگی بھی اختیار کرلیتے ہیں لیکن ان سب  میں والدین کا مقصد بچوں کی اصلاح اور ان کی بھلائی ہی مقصود ہوتی ہے لہٰذا اولاد کو چاہیئے کہ والدین کے کسی بھی رویہ اور انداز اور ان کی کسی بھی بات کو برا نہ سمجھے  بسا اوقات ہم اپنے طور پر ایک چیز صحیح سمجھ رہے ہوتے ہیں مگر حقیقت میں وہ غلط ہوتی ہے جن کی ہمارے  والدین کو پہچان ہوتی ہے    اسی طرح ہم ایک چیز کو غلط سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن اسے کرنے میں ہماری بھلائی ہوتی ہے، اولاد کو چاہیئے کہ ہر حال میں والدین کی  مطیع و فرماں بردار اور با ادب رہے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو یعنی والدین کی طرف سے زیادتی بھی ہوتو بھی اولاد کو  ہرگز ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ بھی ایسا رویہ، انداز اپنائے کہ جس سے والدین کی دل آزاری ہو، والدین جیسے بھی ہوں اولاد ان کی اطاعت اور ادب کرنے اور ان سے محبت و شفقت بھرے انداز سے پیش آئے یہی قرآن و سنت کے تعلیمات ہیں  حتیٰ کہ والدین ظلم بھی کریں۔

   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴)ترجمۂ کنزالایمان:اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پُوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان سے ”ہُوں“ نہ کہنا،اور انہیں نہ جھڑکنا، اور ان سے تعظیم کی بات کہنااور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا  نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب !تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن(یعنی بچپن) میں پالا۔(سورۂ بنی اسرائیل، آیت 23،24)

   اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں  باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا، اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں  باپ ہیں اس لئےاللہ  تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔“(تفسیر صراط الجنان،جلد5، صفحہ 440،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم