
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا بینک کی نوکری کرنا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بینک کی ہر ایسی نوکری جس میں سود لینا دینا، لکھنا پڑھنا، سود ی ڈاکومینٹس تیار کرنا، سود کی ریکوری کرنا، کسٹمرز کو سود پر لون فراہم کرنا، یا کسی بھی طرح کا سود کے متعلق کام ہو، تو بینک کی وہ نوکری کرنا، ہرگز جائز نہیں، کیونکہ اس میں سود جیسےحرام وگناہ کے کام پر معاونت یعنی مدد اور اجارہ کرنا ہے اور حرام کام کی معاونت اور اس پر اجارہ کرنا، ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی، وہیں سودلکھنے والے اور اس کے گواہ بننے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ہاں البتہ اگرسودی بینک کی نوکری ایسی ہو کہ جس میں یہ کام نہ کرنے پڑیں جیسے ڈرائیور یا سیکورٹی گارڈ، الیکٹریشن اور صفائی وغیرہ کے کام کی نوکری، تو وہ شرعاً جائز ہے۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث ِپاک ہے:
’’عن جابر رضی اللہ عنہ قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٰکل الربا و موکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء‘‘
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سودکھلانے والے، سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں) برابر ہے۔ (صحیح مسلم، باب لعن اکل الربا وموکلہ، صفحہ 671، حدیث: 4093، موسسۃ الرسالۃ، بیروت)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ حدیث پاک کے اس لفظ(ھم سواء)کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یعنی اصلِ گناہ میں سب برابر ہیں کہ سود خوار کے ممدومعاون ہیں، (اور)گناہ پر مددکرنا بھی گناہ ہے۔‘‘ (مرآۃ المناجیح، جلد4، صفحہ270، مطبوعہ کراچی)
امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سےفتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ بینک کی ایسی ملازمت کے متعلق کیا حکم ہے جس میں سودی قرض وصول کرنا وغیرہ کام کرنے پڑتے ہیں؟
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’(ایسی ملازمت) جس میں خود ناجائز کام کرنا پڑے، جیسے یہ ملازمت جس میں سود کا لین دین، اس کا لکھنا پڑھنا، تقاضا کرنا اُس کے ذمہ ہو، ایسی ملازمت خود حرام ہے، اگرچہ اس کی تنخواہ خالص مال حلال سے دی جائے، وہ مال حلال بھی اس کیلئے حرام ہے، اور مال حرام ہے تو حرام در حرام ۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ515، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
جس عہدہ میں سودی اور حرام معاملات پر معاونت پائی جائے، شرعاً وہ عہدہ ناجائز و حرام ہے، چنانچہ فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہاں یہ(عہدہ)شرعاً حرام ہے جبکہ صورت وہی ہے جو ذکر کی ہے، کیونکہ یہ عہدہ ان سودی چیکوں و رسیدوں پر بڑی شہادت ہے، تو اس عہدہ پر قائم شخص سودی اور حرام معاملات پر معاون ہوتا ہے اور بیشک اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان
یعنی گناہ اور عداوت پر باہمی تعاون نہ کرو، اور طبرانی نے اپنی کبیر میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے حسن سند کے ساتھ مرفوع حدیث میں روایت کیا کہ اللہ تعالی سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے جبکہ وہ جانتے ہوئے یہ عمل کریں، تو بیشک حرمت کے تین وجوہ گناہ میں اعانت، سود کی کتابت اور گواہی، کا سب رجسڑار جامع ہوتا ہے ۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ476-477، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ وقار الفتاوی میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’بینک کے جو ملازم (جن کے متعلق سود کا کام ہو جیسے)سود کا حساب کتاب لکھتے ہیں یا سود طے کرتے ہیں، ان کی ملازمت ناجائز ہے‘‘۔مفتی صاحب ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’جن لوگوں کو سود کے کاغذات لکھنا نہیں ہوتے ہیں مثلا ًدربان، پیون، اور ڈرائیور، ان کی ملازمتیں جائز ہیں ۔‘‘ (وقار الفتاوی، جلد3، صفحہ324-326، بزم وقار الدین)
گناہ کے کام پر اجارہ ناجائز ہے، جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: ’’گناہ کے کام پر اجارہ ناجائز ہے مثلاً نوحہ کرنے والی کو اجرت پر رکھا کہ وہ نوحہ کرے گی جس کی یہ مزدوری دی جائے گی، گانے بجانے کیلئے اجیر کیا کہ وہ اتنی دیر تک گائے گا اور اس کو یہ اجرت دی جائے گی ۔ان صورتوں میں اجرت لینا بھی حرام ہے اور لے لی ہو تو واپس کرے اور معلوم نہ رہا ہو کہ کس سے اجرت لی تھی تو اسے صدقہ کردے کہ خبیث مال کا یہی حکم ہے‘‘۔ (بھار شریعت، جلد3، حصہ14، صفحہ144، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-520
تاریخ اجراء: 18 صفر المظفر1446ھ/24 اگست2024ء