کھیتی باڑی پر حصے کی ناجائز صورت اور اسکا عشر

زمین کاشت کاری کے لیے دینے کی ناجائز صورت اور عشر کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہماری چھ کنال زمین ہے جس پر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور وہاں پر ایک شخص کو آٹھویں حصہ پر رکھاہوا ہے۔ اور زمین کو زیادہ تر ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں عشر ادا کرنا ہوگا؟ اور کیا عشر سارے خرچے نکال کر ادا کرنا ہوگا، اور کیا جس کو آٹھویں حصے پر رکھا ہے، اس کا بھی حصہ نکال کر عشر ادا کرنا ہوگا، یا اس کا حصہ نکالنے سے پہلے ادا کرنا ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

یہاں اصل جواب سے پہلے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ آج کل زمینداروں کے ہاں یہ صورت بہت عام ہےکہ وہ اپنی زمین کو اپنے قبضے میں رکھ کر اُس میں کاشت کاری، بیج ڈالنے، پانی دینے، دیکھ بھال وغیرہ کاموں کے لیےکسی شخص کو اُجرت (ملازمت) پر رکھتے ہیں، اور اُس ملازم کی مزدوری میں اُسی فصل کی پیداوار سے کچھ مخصوص حصہ مقرر کردیتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے یہ صورت ’’اجارہ فاسدہ‘‘ کی ہے۔ اس کے فاسد ہونے کی چند وجوہات یہ ہیں:

اولاً: یہ قفیزِ طحان ہے کیونکہ مزدور کی اجرت اُسی کام میں سے مقرر کرنا، فقہی و شرعی اصطلاح میں ’’قفیزِطحان‘‘ کہلاتا ہے، جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واضح طور پر ممانعت ارشاد فرمائی ہے۔

ثانیاً: اجارے میں اجرت کا معلوم و متعین ہونا (Specified) ہونا ضروری ہوتا ہے،ورنہ اجارہ فاسد ہوجاتا ہے۔ فصل کی دیکھ بھال،پانی دینے وغیرہ کاموں کی اُجرت میں پیداوار کا کوئی حصہ جیسے آٹھواں حصہ مقرر کرنے میں اُجرت مجہول ہے اور اس کا وُجود خطرے میں ہے، یعنی معلوم نہیں کہ کتنی پیداوار ہوگی اور اُس میں سے مزدور کو کتنی مقدار ملے گی؟اور پیداوار ہوگی بھی یا نہیں؟

لہٰذا اگر سوال میں ’’آٹھویں حصہ پر رکھنے‘‘ سے بھی یہی اجرت والی صورت مراد ہو، تو بیان کردہ وجوہات کے سبب یہ طریقہ شرعاً، ناجائز و گناہ ہوگا اور اس معاہدے کو ختم کرنا اور اس سے توبہ کرنا واجب ہوگا۔ نیز اگر مزدور نے فاسد اجارے والے معاہدے کے تحت کام کرلیا ہو، تو ایسی صورت میں مزدور کو اجرتِ مثل دی جائے گی، یعنی اِس جیسے کام کے لیے عام طور پر بازار میں جتنی اُجرت دی جاتی ہے، وہ اُسے دی جائے گی جو کہ مقررہ اُجرت سے زائد نہ ہوگی، لہذا اگر اُجرتِ مثل، آٹھویں حصے سے کم بنتی ہو تو وہی دی جائے گی، اور اگر اُجرتِ مثل ،مقررہ آٹھویں حصے کے برابر، یا اس سے زائد بنتی ہو، تو پھر مقررہ حصہ ہی اُجرت میں دیا جائے گا، اس سے زائد نہیں۔

درست طریقہ:

اگر کسی مزدور کو زمین کی دیکھ بھال، بیج ڈالنے، پانی دینے وغیرہ کاموں کے لیے اُجرت (ملازمت) پر رکھنا ہو، تو فصل کی پیداوار میں سے کوئی معینہ مقدار (مثلاً 10، 20 کلو وغیرہ) بطورِ اجرت طے کرلی جائے، لیکن یہ شرط نہ رکھی جائے کہ وہ اُسی فصل میں سے ہی دی جائے گی یعنی اگر گندم کی فصل بوئی ہے تو یوں کہہ دیا جائے کہ آپ کو اِن کاموں کے عوض مثلاً بیس کلو گندم اُجرت میں دی جائے گی، اور یہ نہ کہے کہ اِسی فصل سے دے گا جس میں وہ کام کررہا ہے، پھر اس کے بعد اگر مالک  زمین چاہے تو وہ اُجرت اُسی فصل سے دیدے یا الگ سے دیدے، دونوں صورتیں جائز ہوں گی۔

بہرحال جہاں تک عشر یا نصف عشر کی ادائیگی میں فصل کے اخراجات، یا مزدور کی اجرت وغیرہ کو نکالنے کے متعلق سوال ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ پوچھی گئی صورت میں جبکہ زمین کو زیادہ تر ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، تو پیداوار پر نصف عشر (بیسواں حصہ) لازم ہوگا اور یہ نصف عشر پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا، یعنی فصل کے اخراجات، مزدور کی اجرت وغیرہ کو مائنس نہیں کیا جائے گا۔

قفیز طحان کی ممانعت سے متعلق مسند ابی یعلی کی حدیث پاک میں ہے:

عن أبي سعيد قال: «نهى عن عسب الفرس، و قفيز الطحان»

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے گھوڑے کی جفتی کی اجرت اور قفیز طحان سے منع فرمایا ہے۔ (مسند ابی یعلی، جلد 2، صفحہ 301، رقم الحدیث: 1024، مطبوعہ دمشق)

اجارہ پر کام کرانے میں اُسی کام میں سے اُجرت مقرر کرنا، اجارہ فاسدہ ہے، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

(و لو دفع غزلاً لآخر لینسجہ لہ بنصفہ) أی : بنصف الغزل (أو استاجر بغلاً لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثوراً لیطحن برہ ببعض دقیقہ) فسدت فی الکل؛ لانہ استأجرہ بجزء من عملہ و الاصل فی ذلک نھیہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قفیز الطحان۔۔۔ و الحیلۃ ان یفرز الاجر اولاً، أو یسمی قفیزاً بلا تعیین ثم یعطیہ قفیزاً منہ فیجوز

ترجمہ: اگر ایک شخص نے دوسرے کوکپڑا بُننے کے لیے دھاگا دیا کہ وہ اس کے نصف یعنی نصف دھاگے کے بدلے کپڑا بنے گا، یا غلہ اٹھا نے کے لیے خچرکرائے پر لیا کہ وہ اس کے بعض کے بدلے میں اس کا غلہ اٹھائے، یا بعض آٹے کے بدلے گندم پیسنے کے لیے بیل لیا، تو ان تمام صورتوں میں اجارہ فاسد ہے، کیونکہ اس نے دوسرے شخص کو اس کے عمل میں سے بعض حصے کے عوض پر اجیر کیا اور اس (اجیر کے عمل میں سے اجرت دینے کے ناجائز ہونے) میں اصل حضور ﷺ کا قفیز طحان سے منع فرمانا ہے اور (ان ناجائز صورتوں کا شرعی طریقہ) حیلہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی اجرت الگ کر کے دےدے، یا متعین کیےبغیر چندقفیز اجرت کے طور پر طے کرے اور پھر (جو گندم پسوائی ہے) اس میں سے دے دے، تو شرعاً جائز ہے۔

درمختار کی عبارت’’فسدت فی الکل‘‘کے تحت رد المحتار میں ہے:

و یجب اجرا لمثل لا یجاوز بہ المسمی

 ترجمہ: اور (اس سب صورتوں میں) اجرت مثل لازم ہوگی جو بیان کردہ اجرت سے تجاوز نہیں کرے گی۔ (تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار، جلد 9، کتاب الاجارۃ، صفحہ 97،دار المعرفۃ، بیروت)

کسی کو اس شرط پر مزدوری پر رکھا کہ اُسی کام سے حاصل ہونے والے مال سے اُس کو اُجرت دی جائے گی، تو اُجرت کے مجہول ہونے کی وجہ سے عقدشرعاً فاسد ہوجاتا ہے، چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:

و لو استأجره لينقي تراب المعدن أو تراب الصياغة بنصف ما يخرج منه،كان فاسدا؛ لأن الأجر مجهول، و وجوده على خطر، وهو استئجار ببعض ما يخرج من عمله، فيكون بمعنى قفيز الطحان، فله أجر مثله؛ لأنه أوفى المنفعة بعقد فاسد

ترجمہ: اور اگر کسی کو مزدوری پر رکھا کہ وہ کان کی مٹی، یا سناروں کی مٹی کو صاف کرے، اس شرط پر کہ جو کچھ اس میں سے نکلے گا، اُس کا آدھا اس (مزدور) کا ہوگا، تو یہ اجارہ فاسد ہے؛ کیونکہ اجرت مجہول ہے اور اس کا وجود خطرے میں ہے، اور یہ اُس چیز کے کچھ حصے پر اجرت مقرر کرنا ہے جو اُس کے عمل سے حاصل ہوگی، تو یہ قفیز طحان کے معنیٰ میں ہے، لہٰذا اُس کیلئے اجرتِ مثل ہو گی؛ کیونکہ اُس نے فاسد عقد کے ذریعے منفعت مکمل طور پر پہنچا دی ہے (لہذا وہ اجرت کا مستحق ہوگیا ہے)۔ (مبسوط سرخسی، جلد 14، صفحہ 49، 50، دار المعرفۃ، بیروت)

اُجرت مجہول ہونے سے اِجارہ فاسد ہوجاتا ہے، چنانچہ تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:

(و) تفسد(بجهالة المسمى) كله أو بعضه

ترجمہ: اور مکمل یابعض اجرت کے مجہول ہونے سے اجارہ فاسدہوجاتاہے۔ (تنویر الابصار مع در محتار، جلد 9، صفحہ 80،دار المعرفۃ، بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اجارہ جو امر جائز پر ہو وہ بھی اگر بے تعینِ اجرت ہو تو بوجہِ جہالت، اجارہ فاسدہ اور عقد حرام ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 529، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

بہار شریعت میں ہے: ’’اجارہ پر کام کرایا گیااور یہ قرار پایا کہ اُسی میں سے اتنا تم اُجرت میں لے لینا یہ اجارہ فاسد ہے مثلاً کپڑا بُننے کے ليے سوت دیا اور یہ کہہ دیا کہ آدھا کپڑا اُجرت میں لے لینا یا غلہ اُٹھا کر لاؤ اُس میں سے دوسیر مزدوری لے لینا یا چکی چلانے کے ليے بیل ليے اور جو آٹا پیسا جائے گااُس میں سے اتنا اُجرت میں دیا جائے گایوہيں بھاڑ (بھٹی) میں چنے وغیرہ بھنواتے ہیں اور یہ ٹھہرا کہ اُن میں سے اتنے بھنائی میں ديے جائیں گے یہ سب صورتیں نا جائز ہیں۔ ان سب میں جائز ہونے کی صورت یہ ہے کہ جو کچھ اُجرت میں دینا ہے اُس کو پہلے سے علیحد ہ کردے کہ یہ تمھاری اُجرت ہے مثلاً سوت کو دوحصہ کرکے ایک حصہ کی نسبت کہا کہ اس کا کپڑا بُن دو اور دوسرادیا کہ یہ تمھاری مزدوری ہے یا غلہ اُٹھانے والے کو اُسی غلہ میں سے نکال کردیدیا کہ یہ مزدوری ہے اور یہ غلہ فلاں جگہ پہنچادے۔ بھاڑوالے پہلے ہی اپنی بھنائی نکال کر باقی کو بھونتے ہیں اسی طرح سب صورتوں میں کیا جاسکتا ہے دوسری صورت جو از کی یہ ہے کہ مثلاً کہہ دے کہ دوسیر غلہ مزدوری دیں گے یہ نہ کہے کہ اس میں سے دیں گے پھر اگر اُسی میں سے دیدے جب بھی حرج نہیں‘‘۔

اسی میں ہے: ’’کھیت کٹتا ہے تو بالیں ٹوٹ کرگرتی ہیں کاشتکار وں کا قاعدہ ہے کہ اُن بالیوں کو چنواتے ہیں اور اُنھیں میں سے نصف مزدوری دیتے ہیں یا کپاس چنواتے ہیں اس کی مزدوری بھی اسی میں سے دی جاتی ہے بلکہ کھیت کاٹنے والے کو بھی اُسی میں سے مزدوری دیتے ہیں یہ سب اجارے نا جائز ہیں۔‘‘ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 149، 150، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اجارہ فاسدہ، معصیت یعنی گناہ ہے اور گناہ کو زائل کرنا لازم ہوتا ہے، لہذا اجارہ فاسدہ کو ختم کرنا لازم ہے، چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اجارہ فاسدہ معصیت ہے اور معصیت کا ازالہ (ختم کرنا) فرض‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 346، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اجارہ فاسدہ میں اجرت مثل واجب ہوگی جو کہ مقررہ اجرت سے زائد نہ ہوگی، چنانچہ بہار شریعت میں ہے: ’’اجارہ فاسد میں اگر اُجرت مقرر ہے تو اُجرتِ مثل واجب ہوگی جو مقرر سے زائد نہ ہو یعنی اگر اُجرتِ مثل مقرر سے کم ہے تو اُجرتِ مثل دیں گے اور اگر مقرر کے برابریا اُس سے زائد ہے تو جو مقرر ہے وہی دیں گے زیادہ نہیں دیں گے۔‘‘ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 113، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

جس زمین کی سیرابی بارش، نہر وں اور آلات وغیرہ کے ذریعے حاصل ہونے والے دونوں طرح کے پانیوں سے ہوتی ہو، تو جس پانی سے زیادہ تر سیرابی ہواس کا اعتبار ہوگا، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:

فما سقي بماء السماء، أو سقي سيحا ففيه عشر كامل، و ما سقي بغرب، أو دالية، أو سانية ففيه نصف العشر، والأصل فيه ما روي عن رسول اللہ – صلى اللہ عليه و سلم – أنه قال «ما سقته السماء ففيه العشر و ما سقي بغرب، أو دالية، أو سانية ففيه نصف العشر»۔۔۔۔ و لأن العشر وجب مؤنة الأرض فيختلف الواجب بقلة المؤنة و كثرتها ولو سقي الزرع في بعض السنة سيحا وفي بعضها بآلة يعتبر في ذلك الغالب؛ لأن للأكثر حكم الكل‘‘ملتقطاً۔

ترجمہ: جو زمین آسمان یا نہر کے پانی سے سیراب کی جائے تو ا س میں مکمل عشر واجب ہے،اور جو کھیتی ڈول یا چرسے سے سیراب کیا جائے، اس میں آدھا عشر (یعنی بیسواں حصہ) واجب ہوتا ہے۔ اس کی اصل رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں فرمایا:جس کھیتی کو آسمان (بارش) سیراب کرے اس میں عشر ہے، اور جس کو ڈول سے سیراب کیا جائے اس میں آدھا عشر ہے۔۔۔ اور اس لئے بھی کیونکہ عشر زمین کی مشقت کے بدلے میں واجب ہوتا ہے، اس لیے مشقت کم یا زیادہ ہونے سے واجب کی مقدار میں فرق آئے گا۔ اور اگر کھیتی کو سال کے کچھ حصے میں نہر کے پانی سے اور کچھ حصے میں کسی آلے کے ذریعے سے سیراب کیا جائے، تو اس میں غالب کا اعتبار کیا جائے گا، کیونکہ اکثر کا حکم کل پر جاری ہوتا ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 62،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ’’جو کھیت بارش یا نہر نالے کے پانی سے سیراب کیا جائے، اس میں عُشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے اور جس کی آبپاشی چرسے یا ڈول سے ہو، اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب اور پانی خرید کر آبپاشی ہو یعنی وہ پانی کسی کی مِلک ہے، اُس سے خرید کر آبپاشی کی جب بھی نصف عشر واجب ہے اور اگر وہ کھیت کچھ دنوں مینھ کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور کچھ دنوں ڈول چر سے سے تو اگر اکثر مینھ کے پانی سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی کبھی ڈول چرسے سے تو عشر واجب ہے، ورنہ نصف عشر۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 917، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

عشر یا نصف عشر بغیر اخراجات نکالے پوری فصل پر لازم ہوتا ہے، چنانچہ ردالمحتار علی الدرالمختار میں ہے:

يجب العشر في الأول ونصفه في الثاني بلا رفع أجرة العمال ونفقة البقر وكري الأنهار وأجرة الحافظ و نحو ذلك

 ترجمہ: مزدوروں کی اجرت، بیلوں کا خرچ، نہر کھودنے کا خرچ اور نگہبان کی اجرت اور اس جیسے دیگر اخراجات نکالے بغیر ہی پہلی صورت (یعنی بارانی یا بغیر مشقت کے پانی لگانے کی صورت) میں مکمل عشر واجب ہوتا ہے، اور دوسری صورت (یعنی مشقت سے پانی لگانے کی صورت) میں نصف عشر (یعنی بیسواں حصہ) واجب ہوتا ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 3، صفحہ 317، دار المعرفۃ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ”جس چیزمیں عشریانصف عشرواجب ہوا، اس میں کُل پیداوار کا عشریانصف عشرلیاجائےگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ مصارفِ زراعت، ہل بیل، حفاظت کرنے والے اور کام کرنے والوں کی اجرت یا بیج وغیرہ نکال کر باقی کا عشر یا نصف عشر دیا جائے۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 918، مکتبۃالمدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-816

تاریخ اجراء: 15 محرم الحرام 1446ھ / 11 جولائی 2025ء