
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے ایک گھر کرائے پر لیا ہے، اب وہ گھر کسی اور کو کرائے پر دینا چاہتا ہوں تو کیا اس طرح گھر کرائے پر لے کر کسی اور کو کرائے پر دینا اور اس طرح کرایہ حاصل کرنا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
آپ نے اس گھر کو جتنے کرائے میں لیا ہے اتنے یا اس سے کم کرائے میں کسی اور کو دینا اور اس سے مال حاصل کرنا جائز ہے، البتہ اگر زیادہ کرایہ کے بدلے دینا ہو تو صرف تین صورتوں میں اس کی اجازت ہے۔
(۱):آپ اس مکان میں کوئی ایسی زیادتی کردیں جس سے اس کی حیثیت بڑھ جائے مثلاً پینٹ کروادیں، یا ٹائلز لگوا دیں وغیرہ۔
(۲):جس چیز کے عوض آپ نے اجارے پر لیا ہے اس کے خلاف جنس کے بدلے اجارہ پر دیں مثلاً آپ نے پیسے سے لیا ہے تو کسی کو سونے یا چاندی وغیرہ کے عوض دیں۔
(۳):یا گھر کے ساتھ کوئی اور چیز بھی ملا کر دیں مثلاً کرسی، میز یا بیڈ وغیرہ اور سب کا کرایہ مجموعی طور پر ایک ہی بتائیں۔ ان تین صورتوں کے علاوہ دوسرے کو زیادہ کرائے پر وہ گھر دینا اور اس سے زائد رقم حاصل کرنا جائز نہیں۔
مبسوط میں ہے:
و قد يحتاج إلى أن يسكنها صديقا له بأجر أو بغير أجر۔۔۔ فإن أجرها بأكثر مما استأجرها به تصدق بالفضل إلا أن يكون أصلح منها بناء أو زاد فيها شيئا فحينئذ يطيب له الفضل
ترجمہ: اجیر کو بسا اوقات حاجت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھی کو اجرت لےکر یا بغیر اجرت کے اپنے ساتھ رکھے، تو اگر اجیر نے اس کو زیادہ کرایہ لے کر رکھا تو اس زائد رقم کو صدقہ کردے، مگر یہ کہ اس نے اس عمارت میں کوئی بہتری کی ہو یا پھر اس میں کچھ اضافہ کیا ہو تو اس صورت میں اس کے لیے زائد رقم حلال ہے۔(المبسوط للسرخسی، جلد 15، صفحہ 130، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت)
در مختار میں زائد رقم لینے کی جوازی صورتیں بیان کرتے ہوئے ہے:
(وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة و غيرها)۔۔۔ و لو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا
ترجمہ: اجیر کو عمارت میں خود رہنے اور کسی دوسرے کو رکھنے کا اختیار ہےخواہ اجارہ لے کر رکھے یا بغیر اجارہ کے، البتہ اگر اپنی اجرت سے زیادہ اجارہ کے بدلے رکھے گا تو نفع صدقہ کردے، مگر دو صورتوں میں نفع رکھنے میں حرج نہیں: جب کہ اس کو اپنی اجرت کے خلاف کسی دوسری جنس کے عوض اجارے پر دیا ہو، یا اس میں کچھ بہتری کر دی ہو۔ (در مختار مع الرد المحتار، جلد 6، صفحہ 29، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ در مختار کی عبارت
(قوله بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا)
کے تحت فرماتے ہیں:
أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده
یعنی: جس چیز کے عوض خود اجارے پر لیا ہے اس کی جنس کے خلاف کسی اور جنس کے بدلے اجارہ پر دیا ہو، اسی طرح اگر اس کے ساتھ اپنی چیز بھی ملا کر اجارے پر دیا تب بھی عقد اجارہ جائز ہے اور اس کے حق میں منافع بھی جائز ہے جیساکہ خلاصہ میں ہے۔ اور اس صورت میں بھی جائز ہے جب کہ اس میں کچھ بہتری کی ہو مثلاً اس نے عمارت پر پلاستر کروادیا ہو یا مونڈیر بنوادی ہو۔ اسی طرح ہر وہ کام اصلاح میں شامل ہے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو؛ کہ اس صورت میں زیادتی اس چیز کے مقابلے میں ہے جو اس نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے۔ (رد المحتار، جلد 6، صفحہ 29، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
صرف تین صورتوں میں کرائے کی چیز زائد رقم کے بدلے کسی اور کو کرائے پر دینا جائز ہے اس کے علاوہ جائز نہیں جیساکہ اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” مگر اس تقدیر پر اس سے زیادہ لینا صرف تین صورت میں جائز ہوسکتاہے ورنہ حرام:(۱) زمین میں نہر یا کنواں کھودے یا اور کوئی زیادت ایسی کرے جس سے اس کی حیثیت بڑھائے، اب چاہے پانچ روپیہ بیگھ پراٹھادے۔(۲) جس شے کے عوض خود اجارہ پرلی ہے اس کے خلاف جنس کے اجارہ کو دے۔۔۔(۳) زمین کے ساتھ کوئی اور شے ملاکر مجموعا زیادہ کرائے پر دے کہ اب یہ سمجھا جائے گا کہ زمین تو وہی روپیہ بیگھ کو دی گئی اور باقی زیادت جس قدر ہو دوسرے شے کے عوض رہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 489، مطبوعہ برکات رضا)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: محمد ساجد عطاری
مصدق: مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتویٰ نمبر: MUI-0289
تاریخ اجراء: 09 صفر المظفر 1446ھ/ 15 اگست 2024 ء