پانچ سال کا کرایہ ایک ساتھ دیکر کرایہ کم کروانا جائز ہے؟

چند سالوں کا اکٹھا کرایہ دے کر کرایہ کم کروانا کیسا ؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ زید بکرکا مکان کرائے پر اس طریقہ کار سے لے رہا ہے کہ زید، بکر کو کسی قسم کا کوئی ایڈوانس نہیں دے گا اور پانچ سال کے لئے اس کا مکان پانچ ہزارروپیہ ماہوار کرایہ پر لے گا اور یہ طے پایاکہ اس حساب سے پانچ سال کا کرایہ یکمشت پہلے ہی ادا کردے گاپانچ سال مکان میں رہنے کے بعد زید بکر کا مکان خالی کردے گا اور بکر زید کو کچھ بھی نہیں دےگا، اس طرح کرنادرست ہےیا نہیں؟ جبکہ مارکیٹ میں اس مکان کا کرایہ اٹھارہ سے بیس ہزار ماہوار ہے۔ ایسا کرنا سود تو نہیں ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مذکورہ صورت میں بطور سکیورٹی کچھ ایڈوانس دیے بغیر، پانچ سال کا معاہد ہ کر کے پانچ سال کا پیشگی کرایہ دینا اور  مکان مارکیٹ ویلیو سے کم کرایہ پر لیناجائزہے۔ یہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ تفصیل اس میں یہ ہے کہ شرعی طور پر عقد قرض میں طے شدہ نفع لینے کو سود کہتے ہیں جبکہ مذکورہ صورت میں کسی قسم کےقرض کا لین دین نہیں پایا جارہا بلکہ کرائے داری کا معاہدہ ہے، جس میں کرایہ مارکیٹ ویلیو سے کم مقرر کیا گیا ہے اور عقد اجارہ میں اجرت عاقدین کی باہمی رضامندی سے کم اور زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ اجارہ میں اجرت کوبیع پر قیاس کرتے ہیں کہ ان دونوں میں مال کا مال کے ساتھ تبادلہ ہے اور بیع میں باہمی رضامندی سے کم و بیش ثمن طے کرنے میں حرج نہیں، لہذا یہاں بھی باہمی رضامندی سے بغیر ایڈوانس اجرت کم و بیش طے کرنےمیں حرج نہیں۔ یونہی عقد اجارہ میں ساری اجرت پیشگی دینا طے کر کے لینا، دینا بھی جائز ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

کل قرض جر منفعۃ فہو ربا

ترجمہ: ہروہ قرض جونفع کھینچے وہ سودہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب البیوع، جلد 4، صفحہ 327،مکتبۃ الرشد، ریاض)

البنایہ شرح الهدایہ میں سودکی تعریف کےبارے میں ہے

الربا فضل خال عن العوض المشروط فی البيع 

ترجمہ: سود ایسے اضافے کا نام ہے جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔ (البناية شرح الهداية، جلد 8، صفحہ 260،دار الكتب العلمية، بيروت)

امام اہلسنت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں: ”وہ زیادت کہ عوض سے خالی ہواور معاہدہ میں اس کا استحقاق قرار پایا ہو، سود ہے۔ مثلا سو (100) روپے قرض دئے اور یہ ٹھہرالیا کہ پیسہ اوپر سو (100) لے گا تو یہ پیسہ عوض شرعی سے خالی ہے لہٰذا سود، حرام ہے۔ (فتاوٰی رضویہ شریف، جلد 17، صفحہ 326، رضا فاونڈیشن، مرکز الاولیاء، لاھور)

بیع کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتاہے

﴿اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾

ترجمہ: مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔ (سورۃ النساء، آیت 29)

اجارہ کوبیع پر قیاس کیا گیا ہے چنانچہ بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

الاجرۃ فی الاجارات معتبرۃ بالثمن فی البیاعات لان کل واحد من العقدین معاوضۃ المال بالمال

ترجمہ: اجارہ میں اجرت کو بیع میں ثمن پر قیاس کیا جائے گا، کیونکہ ان میں سے ہر ایک معاوضۃ المال بالمال ہے۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، جلد 4، صفحہ 193، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

کرایہ کی کمی بیشی کے حوالے سے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں: "باہم زمیندار کا شتکار میں جس قدر پر رضامندی ہوجائے کم پر خواہ زائد پر۔ و اللہ تعالٰی اعلم۔" (فتاوی رضویہ شریف، جلد 20، صفحہ 210، رضافاؤنڈیشن، مرکز الاولیاء، لاہور)

عقد اجارہ میں پیشگی اجرت دینا جائز ہے، الھدایہ شرح بدایۃ المبتدی میں ہے:

الأجرة  لا  تجب  بالعقد وتستحق بأحد معان ثلاثة: إما بشرط التعجيل، أو بالتعجيل من غير شرط، أو باستيفاء المعقود عليه

ترجمہ: محض عقد سے اجرت واجب نہیں ہوتی، بلکہ تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز پائی جائے، تو اجرت کا استحقاق ہوتا ہے، پیشگی اجرت دینے کی شرط ہو یا بلا شرط ہی پیشگی اجرت دے دی جائے یا کام پورا کردیا جائے۔ (الھدایہ شرح بدایۃ المبتدی، جلد 3، صفحہ 231، مطبوعہ: بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشادفرماتے ہیں: ”اُجرت ملک میں آنے کی چند صورتیں ہیں: (1) اُس نے پہلے ہی سے عقد کرتے ہی اُجرت دیدی دوسرا اس کا مالک ہوگیا یعنی واپس لینے کا اُس کو حق نہیں ہے (2) یا پیشگی لینا شرط کرلیا ہو اب اُجرت کا مطالبہ پہلے ہی سے درست ہے (3) یا منفعت کو حاصل کرلیا مثلاً مکان تھا اُس میں مدتِ مقرر ہ تک رہ لیا یا کپڑا درزی کو سینے کے لیے دیا تھا اُس نے سی دیا (4) وہ چیزمستاجر کو سپرد کردی کہ اگر وہ منفعت حاصل کرنا چاہے کرسکتا ہے نہ کرے یہ اُس کا فعل ہے مثلاً مکان پر قبضہ دے دیا یااجیرنے اپنے نفس کو تسلیم کردیا کہ میں حاضر ہوں کام کے لیے تیار ہوں کام نہ لیا جائے جب بھی اُجرت کامستحق ہے۔ (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 110،مکتبہ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی ا بو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Lar-13426

تاریخ اجراء: 12 صفر المظفر 1447ھ / 07 اگست 2025ء