چھٹیوں کے سبب ری ایڈمیشن فیس لینے کا حکم

چھٹیوں کی وجہ سے ری ایڈمیشن کی فیس لینا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کوئی بھی ادارہ چاہے وہ اسکول ہو یا مدرسہ، وہاں اگر کوئی طالب علم بغیر اطلاع کے ایک مہینے میں تین یا اس سے زائد چھٹیاں کرلے، تو کیا اس طالب علم سے اسکول یا مدرسے والے اس مد میں پیسے لے سکتے ہیں کہ اس کا نام خارج کرکے، پھر داخلہ فیس(ری ایڈمیشن فیس) کی مد میں اس طالب علم سے رقم حاصل کرلیں، تو کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ایڈمیشن فیس جو کہ اب کئی اسکولوں میں رائج و معروف ہے، اس کا مفہوم اب صرف تعلیم کی اجازت ہی کیلئے نہیں، بلکہ یہ متعدد اُمور اور اسکول کی طرف سے ملنے والی مختلف خدمات کے مجموعے کا نام ہوتی ہے جس کے بدلے طالب علم سے یہ فیس وصول کی جاتی ہے، متعدد امور سے مراد یہ ہے کہ طالب علم کو ادارے میں ایڈمیشن کیلئے ایک داخلہ فارم دیا جاتا ہے، طالب علم کی تعلیمی قابلیت کو چیک کرنے کیلئے بعض دفعہ تحریری اور بعض دفعہ کمپیوٹرائز ٹیسٹ بھی لیا جاتا ہے، جس کو اسکول کا عملہ چیک کرتا ہے، پھر طالب علم کا داخلہ فارم اور دیگر ضروری ڈاکومینٹس کو ریکارڈ میں شامل کیا جاتا ہے۔ طالب علم اور اس کے سرپرست کو اسکول کی طرف سے کچھ خدمات فراہم کی جاتی ہیں جیسے طالب علم کو داخلہ ملنے کے بعد اسکول والوں کی طرف سے آئی ڈینٹٹی کارڈ (identity card) ايشو كيا جاتا ہے، طالب علم کے سرپرستوں کو ایس ایم ایس سروس فراہم کی جاتی ہے، جس کے ذریعے اُنہیں گاہے بگاہے اسکول سے متعلقہ معلومات دی جاتی ہیں۔الغرض فی زمانہ ایڈمیشن فیس اِن تمام امور اور خدمات کے عوض لی جاتی ہیں جو کہ قابل معاوضہ و اجرت ہیں۔

جہاں تک رِی ایڈمیشن فیس کی بات ہے، تو بعض صورتوں میں ایڈمیشن فیس کی طرح، ری ایٖڈمیشن فیس لینا بھی جائز ہوگی، اور بعض صورتوں میں نہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں کئی وجوہات جیسے طالبِ علم کے تعلیمی کارکردگی میں ناکام ہونے، بہت زیادہ غیر حاضریاں کرنے، یا اپنی ذاتی، مالی، طبّی وجوہات کی بنا پر تعلیم میں وقفہ لینے، یا اسکول کےڈسپلن کی خلاف ورزی یا فیس کی عدم ادائیگی کے باعث طالب علم  کا نام اسکول سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر جب طالب علم اسکول، یونیورسٹی وغیرہ میں دوبارہ سے داخلہ کی درخواست پیش کرتا ہے ، تو عام طور پر کسی کاغذی کاروائی کے بغیر صرف طالبِ علم کے معذرت کرلینے کے بعد یا فیس کی ادائیگی کے بعد دوبارہ داخلہ دے کر بٹھادیا جاتا ہے، اس صورت میں طالب علم کا G.R No (جنرل رجسٹر نمبر)بھی وہی رہتا ہے، اور طالب علم کے کسی سسٹم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا نام اور بنیادی معلومات پہلے سے ادارے کے ریکارڈ میں موجود ہوتی ہیں، لہذا اسی پہلے ریکارڈ کی بنیاد پر ہی اُسے اپنی تعلیم دوبارہ سے جاری رکھنے کی اجازت دیدی جاتی ہے۔جبکہ بعض صورتوں میں جہاں طالب علم کے زیادہ عرصہ تک چھٹیاں کرنے، یا سیمسٹر میں نا کامی کے بعد ادارہ اس کا داخلہ منسوخ کردیتا ہے، تو وہاں دوبارہ اُس ادارے یا سیمسٹر میں داخلہ لینے یا تعلیم کی نوعیت میں تبدیلی کرنے کیلئے جب طالب علم درخواست کرتا ہے، تو ری ایڈمیشن کیلئے بھی طالبِ علم کو ادارے کی طرف سے باقاعدہ ایک فارم دیا جاتا ہے، جس میں طالب علم کی ذاتی معلومات اور دوبارہ داخلے کی وجوہات شامل ہوتی ہیں، اور فارم کے ساتھ طالبِ علم کے سابقہ تعلیمی ریکارڈز جیسے مارکس شیٹ اور تعلیمی کارکردگی کے دیگر دستاویزات منسلک کروائے جاتے ہیں، اسی کے ساتھ اگر طبی وجہ سے غیر حاضریا ں ہوئی ہوں، تو طبی سرٹیفکیٹ یا ڈاکٹر کی رسید وغیرہ بھی طلب کی جاتی ہے، اس کے بعد ادارہ ان سب دستاویزات کا جائزہ لے کر کچھ ضروری کاروائیوں کے بعد ہی اس طالب علم کو دوبارہ داخلہ دیتا ہے۔دونوں صورتوں میں لی جانے والی ری ایڈمیشن فیس کا حکم مختلف ہے۔

پہلی صورت جس میں بغیر کسی کاروائی کے صرف تعلیم کی اجازت دے کر دوبارہ سے بٹھادیا جاتا ہے، تو اس صورت میں رِی ایڈمیشن فیس لینا شرعاً درست نہیں، کیونکہ یہ فیس صرف تعلیم کی اجازت دینے کے بدلے میں ہے، اور یہ اجازت دینا شرعی اعتبار سے کوئی قابلِ معاوضہ چیز نہیں، اور یہ رشوت کے زُمرے میں ا ٓئے گا، کیونکہ طالب علم یہ رقم اس لئے دے گا کہ اُسے دوبارہ مدرسے یا اسکول میں تعلیم کا حق دیا جائے، اور شرعی طور پراپنا کام نکالنے کیلئے کسی کو کچھ دینا رشوت کہلاتا ہے۔البتہ دوسری خاص صورت میں کہ جب ادارہ طالب علم کو فارم دے کر چند ضروری کاروائیوں کے بعد داخلہ کی اجازت دیتا ہے، تو وہاں طالب علم سے ری ایڈمیشن فیس لینا جائز ہوگا، کیونکہ اِس صورت میں ایڈمیشن فیس کی طرح ، ری ایڈمیشن فیس بھی صرف تعلیم کی اجازت کے بدلے نہیں، بلکہ یہ ادارے کی مختلف کاروائیوں کے بدلے میں ہے، اور شرعاً اس طرح کے کاموں پر اجرت لینا جائز ہےکہ یہ قابل معاوضہ امور ہیں، لہذا صرف اس خاص صورت میں ری ایڈمیشن فیس کا لینا جائزہوگا۔

 باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھانے کی ممانعت سے متعلق، قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ‘‘

 ترجمہ کنزالعرفان : اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو۔ (پارہ 5، النساء : 29)

اس آیت کے تحت تفسیر ابی السعود میں ہے

’’والمراد بالباطل ما یخالف الشرع، کالغصب، والسرقۃ، والخیانۃ، والقمار، وعقود الربا، وغیر ذلک مما لم یبحہ الشرع ، ای لایاکل بعضکم اموال بعض بغیر طریق شرعی‘‘

 ترجمہ: (مذکورہ آیت میں باطل سے مراد) ہر وہ طریقہ ہےجو شریعت کے مخالف ہو جیسے، غصب، چوری، خیانت، جوئے، سودی لین دین، اور اس کے علاوہ ہر اس طریقے سے مال حاصل کرنا جس کو شریعت نے حرام قراردیا ہو، (آیت کامعنی یہ ہےکہ )تم میں کوئی بھی کسی کا مال شرعی طریقے کے بغیر حاصل نہ کرے۔(تفسیر ابی السعود، جلد2، صفحہ170، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

صرف تعلیم کی اجازت کے بدلے فیس لینا جائز نہیں ہوگا، جیسا کہ فیصلہ جات شرعی کونسل میں ہے:’’اذنِ تعلم، بیع و اجارہ کے قابل نہیں، اس لئے (اس اجازت کے بدلے )فیس لینا ناجائز ہے، یہی حکم تجدید داخلہ فیس کا بھی ہے۔ ‘‘ (فیصلہ جات شرعی کونسل، صفحہ217، جامعۃ الرضا، بریلی شریف)

اور اس صورت میں اس فیس کی شرعی حیثیت رشوت کی ہوگی، جیسا کہ مفتی نظام الدین رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ رجسٹریشن فیس سے متعلق کلام کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس کے ناجائز ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ(رجسٹریشن) فیس کی شرعی حیثیت رشوت کی ہے، جو یقینا حرام ہے، وجہ یہ ہے کہ اپنا یا کسی کا بھی کام بنانے کے لیے ابتداء ً صاحبِ امر کو کچھ روپے وغیرہ دینا رشوت ہے اور یہاں کمپنی کو فیس اس لیے دی جاتی ہے کہ اسے اجرت پر ممبر سازی کا حق دے دیا جائے اورفیس کے مقابل کوئی چیز نہیں ہوتی۔‘‘ (ماھنامہ اشرفیہ، شمارہ مئی2008ء، صفحہ38)

بغیر کسی شرعی سبب کے دوسرے کا مال لینا جائز نہیں، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

’’لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي‘‘

ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے، کسی دوسرے مسلمان کا مال بغیر کسی شرعی سبب کے لینا جائز نہیں ہے۔   (رد المحتار علی الدرالمختار، جلد4، صفحہ61، دار الفكر، بیروت)

رشوت کی تعریف اور اس کا حکم بیان کرتے ہوئے، سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں : ”رشوت لینا مطلقا حرام ہے ، کسی حالت میں جائز نہیں۔ جو پرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے ، رشوت ہے۔ یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ597، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

ایڈمیشن فیس متعدد امور کے مجموعے کا نام ہے، جو کہ قابل معاوضہ ہیں ، لہذا ایڈمیشن فیس لینا جائز ہے، چنانچہ فقیہ عصر حضرت علامہ مولانا مفتی نظام الدین دام ظلہ العالی لکھتے ہیں: ”آج کے موجودہ حالات میں داخلہ فیس کی شرعی حیثیت اجرت کی ہے اور اسے مناسب مقدار میں غیرَ باغ و لا عاد لینا جائز ہے۔ مدرسے میں کسی طالب علم کے داخلے کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اس کی علمی لیاقت کا جائزہ لے کر اسے علم حاصل کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس پر کوئی فیس یا اجرت لینی ناجائز ہے کیونکہ یہ مدرسین اور صدر المدرسین کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ طلبہ کی علمی لیاقت کی جانچ پرکھ کر کے مناسب درجے میں پڑھنے کی رپورٹ اور اجازت دیں اور اپنے فرائض و ذمے داریوں کو پورا کرنے کی اجرت لینا جائز نہیں۔

مگر آج کل مدرسے میں داخلے کا مفہوم صرف اسی قدر نہیں بلکہ اس کے ساتھ تعلیمی نظم و نسق کو مضبوط کرنے اور مدرسے کو باضابطہ چلانے کے لئے یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ طالب علم مدرسے سے فارم حاصل کر کے اس کی خانہ پری کرے اورصدر المدرسین کا عملہ اسے مختلف مراحل سے گزار کر اس کا پورا ریکارڈ مدرسے میں محفوظ کرے۔آج کل مدارس کی طرف سے طلبہ کو جو مراعات دی جاتی ہیں وہ انہیں ان مراحل سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہیں۔ تو آج کے حالات میں داخلہ نام ہے متعدد امور کے مجموعے کا : داخلہ فارم، اس کی خانہ پری، اس پر صدر المدرسین کی طرف سے ضروری کاروائی، رجسٹرداخلہ میں تفصیلات کا اندراج ، پھر اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مراعات مثلاً قیام وطعام و کتب اور روشنی و ہوا کا اہتمام۔ ان سب کے مجموعے کے ساتھ ہی اب داخلہ کا تصور ذہنوں میں ابھرتا ہے اور رجسٹر داخلہ کا انتظام اور اس میں طلبہ کے نام ، پتے ، وغیرہ ضروری تفصیلات کا اندراج اور حفاظت شرعاً صدر المدرسین کی منصبی ذمہ داریوں میں سے نہیں ہے۔ اس لئے ان سب امور کے پیش نظر کوئی مناسب معاوضہ بنام فیس مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اب داخلہ فیس مجموعی طور پر ان سب کاموں کی اجرت کا ہے اور شرعا اس طرح کے کاموں پر اجرت لینا جائز ہے ، لہٰذا اس طرح کے کام پر سماج میں جو اجرت دی اور لی جاتی ہے، اتنی اجرت دینے اور لینے کی اجازت ہے اور اس سے تجاوز نامناسب ہے۔ ‘‘     (ماھنامہ اشرفیہ، نومبر 2013، صفحہ10، 11)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-533

تاریخ اجراء: 27 صفر المظفر1446ھ/02ستمبر 2024ء