
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
ہماری بچوں کے کپڑوں اور کھلونوں کی دکان ہے، تو وہاں پر ہم حربی کافروں کو بھی جاب پر رکھتے ہیں، جب یہ انٹرویو دینے آتے ہیں تو مسلم و حربی کافر سبھی سے ہم یہ شرط لگاتے ہیں کہ اگر آپ تین دن کے اندر کام چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو اس کی تنخواہ ہم نہیں دیں گے، وہ اس بات پر راضی ہو کر کام کرتے ہیں، تو اس طرح کرنا درست ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
تین دن کے اندرکام چھوڑ کر چلے جانے کی صورت میں تنخواہ ضبط کرنے کی شرط، مقتضائے عقدکے خلاف ہے اور اس میں عاقدین میں سے ایک کانفع ہے اور ایسی شرط سے عقد فاسد ہوجاتاہے، اس لحاظ سے عقداجارہ کرتے وقت تنخواہ ضبط کرنے کی شرط لگانے سے عقد اجارہ فاسد ہو جائے گا، اور عقودفاسدہ کافر حربی کے ساتھ اس کی رضامندی سے، بغیر کسی غدر (دھوکے) کے کیے جاسکتے ہیں، جبکہ یہ مسلمان کے لیے مفید ہو ں، اور صورت مسئولہ میں بھی غدر (دھوکہ) نہیں بلکہ کافر حربی کی رضامندی کے ساتھ اس کے ساتھ یہ معاہدہ کیا جارہا ہے اور تین دن کے اندر چھوڑ کر چلاجائے تواس میں مسلمان کانفع ہی ہے کہ اسے تنخواہ نہیں دینی پڑے گی لہذا کافر حربی کے ساتھ اس شرط کے ساتھ عقد کرنادرست ہے، لیکن مسلمان کے ساتھ تنخواہ ضبط کرنے کی شرط کے ساتھ عقد کرنا درست نہیں اور اگر کیا تو عاقدین گنہگار ہوں گے اور ان پر لازم ہوگا کہ توبہ کریں اور فاسد عقد کو ختم کریں اور اگر دوبارہ عقد کرناچاہیں تو ازسر نو درست (بغیر شروط فاسدہ کے) عقد کریں، اور اگر فسخ نہ کیا تو گناہ بھی ہوگااور اجرت مثل بھی لازم ہوگی یعنی جتنے دن کام کیا (اگرچہ اس نے ایک دن ہی کام کیا ہو)، اتنے دن، ایسا کام کرنے کی وہاں جتنی اجرت بنتی ہے وہ لازم ہوگی جبکہ اجرت مثل،مقررکردہ سے زیادہ نہ ہو اور اگر اجرت مثل، مقرر کردہ سے زیادہ ہو تو پھر مقرر کردہ ہی لازم ہوگی۔
عنایہ شرح ہدایہ میں ہے
أن الشرط الذي لا يقتضيه عقد الإجارة وفيه منفعة لأحد المتعاقدين شرط فاسد يفسد به العقد
ترجمہ:وہ شرط جس کا عقدِ اجارہ تقاضا نہ کرتا ہو اور اس میں متعاقدین میں سے کسی ایک کا نفع ہو تو ایسی شرط فاسد ہے جس سے عقدِ اجارہ فاسد ہو جاتا ہے۔ (عنایۃ شرح ھدایۃ، ج 9، ص 112، دار الفكر)
ا مام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”یونہی ملازمت بلااطلاع چھوڑ کر چلاجانا اس وقت تنخواہ قطع کرے گا نہ تنخواہ واجب شدہ کوساقط اور اس پر کسی تاوان کی شرط کرلینی مثلا نوکری چھوڑناچاہے تو اتنے دنوں پہلے سے اطلاع دے، ورنہ اتنی تنخواہ ضبط ہوگی یہ سب باطل وخلاف شرع مطہر ہے، پھر اگر اس قسم کی شرطیں عقد اجارہ میں لگائی گئیں جیساکہ بیان سوال سے ظاہر ہے کہ وقت ملازمت ان قواعد پر دستخط لے لئے جاتے ہیں، یا ایسے شرائط وہاں مشہور ومعلوم ہو کر المعروف کالمشروط ہوں، جب تو وہ نوکری ہی ناجائز وگناہ ہےکہ شرط فاسد سے اجارہ فاسد ہوا، اور عقد فاسد حرام ہے اور دونوں عاقد مبتلائے گناہ، اور ان میں ہر ایک پر اس کا فسخ واجب۔“ (فتاوی رضویہ، ج 19، ص 506، 507، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اجرت مثل کے حوالے سےطحطاوی علی الدرمیں ہے
فالفاسد یجب فیہ اجرالمثل ولایزادعلی المسمی ان سمی فی العقد ما لا معلوما و ان لم یسم یجب اجرالمثل بالغامابلغ
ترجمہ: اجارہ فاسدہ میں اجرت مثل واجب ہوگی اور بیان کردہ پر زیادتی نہیں کی جائے گی اگرعقدمیں مقرر مال ذکر کیا گیا ہو اور اگر مقرر مال ذکر نہ کیا گیا ہو تو اجرتِ مثل واجب ہوگی خواہ وہ کتنی ہی ہو۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، کتاب الاجارۃ، ج 4، ص 7، کوئٹہ)
کافرحربی کے ساتھ عقودفاسدہ کرنے کے حوالے سے جزئیات:
فتح القدیر میں ہے
و إنما يحرم على المسلم إذا كان بطريق الغدر فإذا لم يأخذ غدرا فبأي طريق يأخذه حل بعد كونه برضا
ترجمہ: حربی کا مال مسلمان پر صرف اس صورت میں حرام ہوتا ہے جب وہ دھوکے سے لے، چنانچہ جب اس نے دھوکہ کے بغیر لیا چاہے جس طریقے سے لیا ہو تو اس کےلئے حلال ہے بشرطیکہ اس حربی کی رضامندی سے لیا ہو۔ (فتح القدیر، ج 7، ص 39، دار الفكر، بیروت)
فتح القدیر میں ہے
فالظاهر أن الإباحة تفيد نيل المسلم الزيادة، و قد التزم الأصحاب في الدرس أن مرادهم من حل الربا و القمار ما إذا حصلت الزيادة للمسلم
ترجمہ: ظاہر یہ ہے کہ اباحت اس بات کا افادہ کرتی ہے کہ مسلمان کو زیادہ ملے، اور اصحاب نے درس میں اس کا التزام کیا کہ سود و جوا کے حلال ہونے سے فقہاء کی مراد یہ ہے کہ اس وقت جب مسلمان کو زیادہ ملے۔ (فتح القدیر، ج 7، ص 39، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے ”عقد فاسد کے ذریعہ سے کافر حربی کا مال حاصل کرنا ممنوع نہیں یعنی جو عقد مابین دو مسلمان ممنوع ہے اگر حربی کے ساتھ کیا جائے تو منع نہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ عقد مسلم کے لیے مفید ہو مثلاً ایک روپیہ کے بدلے میں دو روپے خریدے یااُس کے ہاتھ مُردار کو بیچ ڈالا کہ اس طریقہ سے مسلمان کا روپیہ حاصل کرنا شرع کے خلاف اور حرام ہے اور کافر سے حاصل کرناجائز ہے۔“ (بہار شریعت، ج 2،حصہ 11، ص 775،مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4240
تاریخ اجراء: 24ربیع الاول1447ھ/18ستمبر2025ء