امام مقررہ وقت سے پہلے استعفیٰ دینے پر اجرت لے سکتا ہے؟

امام کے ساتھ سالانہ اجرت طے ہوئی اور اس نے پہلے ہی امامت چھوڑ دی، تو کیا اتنے دنوں کی اجرت ملے گی؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ہم اپنے گاؤں کی مسجد کے لئےایک امام صاحب لائے، جن کےساتھ یہ طے پایا کہ آپ پنجگانہ نمازیں، نمازِجمعہ اور عیدین کی نماز پڑھائیں گے، جس کے عوض ہم آپ کو سالانہ اجرت دینگے، جس میں بڑی عید (عیدالاضحیٰ) پر 30 ہزار روپے اور چھوٹی عید (عیدالفطر) پر 50 ہزار روپے دینگے اور سالانہ آپ کو 30 من گندم بھی دینگے، اب وہ امام صاحب 2 ماہ نمازیں پڑھانے کے بعد چھوڑ کر چلے گئےہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ ان کو اس رقم اورگندم میں سے کچھ ملے گا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں امام صاحب کو طے شدہ اجرت میں سے 2ماہ کی مقدار جتنی رقم اور گندم بنتی ہے، وہ بطور اجرت دینالازم ہے۔

تفصیل یہ ہے کہ امام مسجدکی حیثیت اجیر خاص کی ہوتی ہے کہ وہ جتنے اوقات کی نمازیں پڑھائیں گے، اتنی اجرت کے مستحق ہونگے اور طے شدہ چھٹیوں کےعلاوہ جن نمازوں کےاوقات میں چھٹی کرینگے، اتنی اجرت انہیں نہیں ملے گی، نیز اجیر خاص جب بعض کام کرے تو وہ اس کے مطابق بعض اجرت کا مستحق ہوتا ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں امام صاحب چونکہ 2ماہ نمازیں پڑھاتے رہےہیں، اس لئے 2 ماہ کی نمازیں پڑھانےکی اجرت ان کو ملے گی۔

علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتےہیں:

و یفتی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآنِ والفقہ والأمامۃ و الاذان

 ترجمہ: اور دورِ حاضر میں تعلیمِ قرآن وفقہ، امامت اور اذان پر اجرت کے صحیح ہونے کا فتوٰی دیا جائے گا۔ (در مختار، جلد 06، صفحہ 55، دار الفکر، بیروت)

اجیر خاص کےتسلیمِ نفس سےاجرت کےمستحق ہونےکےمتعلق شمس الآئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 483ھ/ 1090ء) لکھتےہیں:

ان استحقاق الأجر بتسليم نفسه لذلك العمل

ترجمہ:بیشک (اجیر خاص کے لئے) اجرت کا استحقاق اس کام کےلئےاپنے نفس کو سپرد کرنے سے ہوتا ہے۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 15، صفحہ 161، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

فتاوٰی امجدیہ میں ہے: ”جب وہ امام نماز پڑھانے کے لئے اجیر ہے تو جن وقتوں کی نماز نہ پڑھائے گا، ان وقتوں کی تنخواہ کا مستحق نہیں ہوگا کہ اجیر خاص جب تک تسلیم نفس نہ کرے وہ مستحق اجر نہیں۔۔۔ حسب فتوٰی متاخرین امام کو اجیر رکھنا جائز ہے اور اب اسی پر عمل ہے۔(فتاوٰی امجدیہ، کتاب الاجارہ، جلد 03، صفحہ 274، 279، مطبوعہ آرام باغ، کراچی)

اجیر خاص کےبعض کام کرنے سےبعض اجرت کے مستحق ہونے کے متعلق علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ / 1562ء) لکھتے ہیں:

 يجب الأجر بالبعض لكونه مسلما إلى المستأجر

 ترجمہ: بعض کام کرنے کی بھی اجرت واجب ہوگی کہ اجیرنے بعض کام، مُستَاجِر(اجیر رکھنے والے)کو سپرد کر دیا ہے۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، جلد 07، صفحہ 301، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”مدرسین و امثالہم اجیر خاص ہیں اور اجیرخاص پروقت مقررہ معہودمیں تسلیمِ نفس لازم ہےاوراسی سےوہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے۔۔۔۔ ہاں! اگر تسلیم نفس میں کمی کرے، مثلاً: بلا رخصت چلا گیا ، یا رخصت سے زیادہ دن لگائے یا مدرسے کا وقت چھ گھنٹے تھا، اس نے پانچ گھنٹے دئیےبہر حال جس قدر تسلیم نفس میں کمی کی ہے اتنی تنخواہ وضع ہوگی (یعنی کاٹی جائے گی)۔ معمولی تعطیلیں مثلاً جمعہ و عیدین و رمضان مبارک کی یا جہاں مدارس میں سہ شنبہ کی چھٹی بھی معمول ہے، وہاں یہ بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں کہ ان ایام میں بے تسلیم نفس بھی مستحق تنخواہ ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 506، رضا فاؤنڈیشن)

مذکورہ بالا مسئلہ کی نظیر کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:

مطلب في الإمام والمؤذن إذا مات في أثناء السنة۔۔۔۔أن المدرس و نحوه من أصحاب الوظائف إذا مات في أثناء السنة يعطى بقدر ما باشر ويسقط الباقي

ترجمہ: امام اور مؤذن کےدوران سال وفات پاجانے کےمتعلق فصل۔۔۔۔ بیشک مدرس اور اس کی مثل وظیفہ لینے والی شخصیات جب دورانِ سال وفات پاجائیں تو ان (کے ورثاء) کو ان کے کام کی مقدار اجرت دی جائے گی اور باقی اجرت ساقط ہوجائے گی۔(رد المحتار علی در مختار، كتاب الوقف، جلد 04، صفحہ 417، مطبوعه دار الفکر بیروت)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/ 1947ء) لکھتے ہیں: ”امام و مؤذن کا سالانہ مقرر تھا اور اثناء (دورانِ)سال میں انتقال ہو گیا تو جتنے دنوں کام کیا ہے، اُتنے دنوں کی تنخواہ کے مستحق ہیں، انکے ورثہ کو دی جائے۔۔۔ امام و مؤذن میں سالانہ کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ ششماہی یا ماہوار تنخواہ ہو ،جیسا کہ ہندوستان میں عموماً ماہوار تنخواہ ہوتی ہے، سالانہ یا ششماہی اتفاقاًہوتی ہے اور درمیان میں انتقال ہوجائے تو اتنے دنوں کی تنخواہ کا مستحق ہے۔“ (بھارِ شریعت، جلد 02، صفحہ 546، 547، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR-0069

تاریخ اجراء: 04 ربيع الاول 1447ھ / 29 اگست 2025ء