آدھی پیمنٹ دے کر آرڈر پر چیز تیار کروا سکتے ہیں؟

آدھی پیمنٹ دے کر آرڈر پر چیز تیار کروانا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک اسکول ہے اور اس اسکول کی کتابیں ایک خاص پبلشر شائع کرتا ہے۔ اور وہ پبلشر اپنے اس مخصوص بک ڈپو  کو ہی کتابیں بیچتا ہے جن کا ان سے معاہدہ طے ہوتا ہے۔ پبلشر، بک ڈپو والے سے یوں معاہدہ کرتا ہے کہ آپ کے آرڈر پر آپ کی اس شاپ پر بکس ہم اس صورت میں پرووائڈکریں گے کہ آپ ہمیں  ففٹی پرسنٹ تین ماہ پہلے دیں گے اور جب ڈیلیوری دیں گے اس وقت آپ مکمل پیمنٹ کریں گے  تو پھر ہم آپ کو بکس پرووائیڈ کریں گے ؟ کیا یہ صورت جائز ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں مذکور معاہدہ درست ہے اور اس کے مطابق کتابوں کی خریداری کرنا، جائز ہے۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ کتابیں یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز کاریگر (پبلشر ) سے تیار کروانا شرعی طور پر بیع استصناع کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ بنوائی جانے والی چیز کی جنس، نوع اور وصف(یعنی کتاب کی بائنڈنگ اور صفحے کی کوالٹی کیسی ہو گی، کونسی کلاس، کونسے سبجیکٹ، کونسے رائٹر کی ہو گی) وغیرہ یوں بیان کر دیا جائے کہ جہالت باقی نہ رہے۔ نیز یہ کہ اس چیز کے بنوانے میں لوگوں کا تعامل ہو، لہٰذا جس چیز کے بنوانے کا تعامل نہ ہو، اس کی بیع استصنا ع جائز نہیں ہوتی چونکہ کتابوں میں بھی یہ دونوں چیزیں  پائی جاتی ہیں  اس لیے ان کی بیع استصناع بھی جائز ہے۔

بیع استصناع کے حوالے سے فتاوی عالمگیری میں ہے:

 ”الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه، كالقلنسوة والخف والاواني المتخذة من الصفر والنحاس وما اشبه ذلك استحسانا، كذا في المحيط، ثم ان جاز الاستصناع فيما للناس فيه تعامل اذا بين وصفا على وجه يحصل التعريف، اما فيما لا تعامل فيه۔۔ لم يجز، كذا في الجامع الصغير وصورته: ان يقول للخفاف: اصنع لي خفا من اديمك يوافق رجلي ويريه رجله بكذا او يقول للصائغ صغ لي خاتما من فضتك وبين وزنه وصفته بكذا“

ترجمہ:بیع استصناع استحساناً ہر اس چیز میں جائز ہے جس میں تعامل جاری ہو، جیسے ٹوپی، موزے اور پیتل و تانبے سے بنائے جانے والے برتن اور اس طرح کی دیگر چیزیں، ایسا ہی محیط میں ہے۔ پھر تعامل والی چیزوں میں بھی استصناع اس وقت جائز ہے جب اس کا وصف یوں بیان کر دیا جائے جس سے چیز کی معرفت و پہچان حاصل ہو جائے۔ بہر حال جس چیز میں تعامل نہیں اس میں استصناع بھی جائز نہیں، ایسے ہی جامع الصغیر  میں ہے اور استصناع کی صورت یہ ہے کہ کو ئی شخص موزہ بنانے والے کو اپنا پاؤں دکھاتے ہوئے کہے کہ تم اپنے پاس موجود چمڑے سے میرے اس پاؤں کے مطابق موزہ بنا دو یا سنار کو کہے اپنی چاندی سے مجھے ایک انگوٹھی بنا دو اور اس کا وزن و صفت وغیرہ بیان کر دے۔(فتاوی عالمگیری، کتاب البیوع،  جلد 03، صفحہ 207، دار الفکر، بیروت)

کفایہ میں بیع استصناع کی صورت متعلق  ہے:

”و صورتہ ان یجیئ انسان الی اخر فیقول اخرز لی خفا صفتہ کذا و قدر کذا بکذا درھما او یقول للصائغ اصنع لی خاتما من فضتک و بین وزنہ و صفتہ و یسلم الثمن کلہ او بعضہ او  لا یسلم“

 ترجمہ: اور بیع استصناع کی صورت یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے کے پاس آئے اور اسے کہے میرے لیے اتنے درہم  کے بدلے ایک موزہ سی دو جس کی صفت اور مقدار یہ یہ ہے یا سنار کو کہے کہ میرے لیے اپنی چاندی سے ایک انگوٹھی بنا دو اور پھر اسے انگوٹھی کا وزن اور صفت وغیرہ بیان کر دے اور ثمن چاہے پورا دے دے، چاہے کچھ ادا کرے اور چاہے کچھ بھی ادا نہ کرے۔ (کفایہ مع فتح القدیر، جلد07، صفحہ30، مطبوعہ کوئٹہ)

بیع استصناع میں عقد کے وقت ہی ساری رقم دینا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ اس میں اختیارہوتا ہے، چاہے ساری ایڈوانس ادا کر دیں، چاہے کچھ بھی ایڈوانس ادا نہ کریں اور چاہے تو کچھ ایڈوانس دے دیں اور کچھ بعد میں، یہ سب صورتیں جائز ہیں، جیسا کہ اوپر کفایہ کے جزئیے میں بھی بیان ہوا، نیز مجلہ اور اس کی شرح درر الحکام میں ہے:

”لا يلزم في الاستصناع دفع الثمن حالا أي وقت العقد.……فكما يكون الاستصناع صحيحا بالتعجيل يكون صحيحا بتأجيل بعض الثمن، أو كلہ“

 ترجمہ: بیع استصناع میں فی الحال یعنی وقت عقد ثمن دینا لازم نہیں، لہٰذا جس طرح معجلاً ثمن ادا کرنے سے استصناع صحیح ہو جاتی ہے اسی طرح بعض یا کل ثمن کو مؤجل کر لینے سے بھی استصناع صحیح ہو جاتی ہے۔(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام ، جلد01، صفحہ424، دار الجيل)

نوٹ:بیع استصناع میں ایک ماہ سے زیادہ مدت طے کرنے کی صورت میں امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ بیع سلم بن جاتی ہے اور اس  میں بیع سلم کی تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، لیکن صاحبین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کے مطابق وہ بیع استصناع ہی رہتی ہے۔ اور ہمارے دور  کے جید علمائے کرام  نے صاحبین کے قول پر فتوی دیا ہے، جیسا کہ شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف نے اپنے چھٹے فقہی سیمینار میں دفع حرج شدید کے پیش نظر صاحبین کے قول پر فتوی دیا۔ یونہی مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارکپور  اور مجلس تحقیقات شرعیہ (دعوت اسلامی )کے علمائے کرام و مفتیان عظام  نے بھی فلیٹوں کی بیع استصناع میں حاجت شرعیہ و تعامل کے پیشِ نظر صاحبین کے قول پر فتوی دیا ہے، لہٰذا صاحبین کے مفتیٰ بہ قول کے مطابق اگر کتابوں کی تیاری  کے لیے ایک ماہ یا زیادہ کی مدت طے کر لی جائے، تب بھی وہ بیع استصناع ہی رہے گی اور یہ معاملہ جائز ہوگا۔

فلیٹوں کی بکنگ پر پیش آنے والے جدید مسائل “نامی رسالے میں ہے: ”فی زمانہ عموما فلیٹوں کی یہ بیع ایک ماہ سے زائد عرصہ پر محیط ہوتی ہے، حالانکہ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے مفتیٰ بہ قول کے مطابق اگر بیع استصناع میں ایک ماہ یا اس سے زائد مدت مذکور ہو، تو وہ بیع استصناع کے بجائے بیع سلم ہوجاتی ہے اور پھر اس میں تمام شرائطِ سلم کاپایا جانا ضروری ہے، جبکہ اس کے برعکس صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک بیع استصناع کی وہ صورتیں جن میں تعامل پایا جاتا ہے، ان میں ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا ذکر کرنے پربھی یہ عقد استصناع ہی ہوگا اور یہ ذکرِمدت، تعجیل پر محمول ہوگا۔(فلیٹوں کی بکنگ پر پیش آنے والے جدید مسائل، صفحہ 01، مجلس تحقیقات شرعیہ)

مجلسِ شرعی کے فیصلوں میں ہے: ’’مذہبِ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جو ماخوذ و مفتیٰ بہ ہے، اس کی رو سے اس وقت ’’بیع استصناع‘‘نہیں ہو سکتی جب کہ ایک ماہ یا زیادہ دنوں کی مدت بیع میں مذکور ہو، لیکن صاحبین رحمہما اللہ کا مذہب یہ ہے کہ تعامل کی صورت میں ذکرِ مدت کے ساتھ بھی استصناع جائز ہے اور مدت کا ذکر تعجیل پر محمول ہو گا۔۔مذہبِ امام اعظم سے عدول کے لیے حاجتِ شرعیہ متحقق ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سے شہروں میں اس طریقہ خریدوفروخت پر عوام و خواص کا عمل درآمد ہے۔ ایسی صورت میں صاحبین علیہما الرحمۃ کے نزدیک ایک ماہ یا زیادہ مدت ذکر ہونے کے باوجود استصناع جائز ہے اور قولِ صاحبین بھی باقوت ہے، اس لیے اس صورت کو استصناع کے دائرے میں رکھتے ہوئے قولِ صاحبین پر جائز ہونے کا حکم دیا جاتا ہے۔‘‘(مجلسِ شرعی کے فیصلے،جلد 01، صفحۃ 238تا 239،والضحی پبلی کیشنز)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : محمد ساجد عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: IQL-0151

تاریخ اجراء27 جمادی الاخری1446ھ/30 دسمبر2024ء