لائٹوں کے گچھے میں کچھ بلب خراب نکلے تو کیا حکم ہے؟

لائٹوں کا گچھا خریدا اور کچھ بلب خراب نکل آئے تو واپس کر سکتے ہیں ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے ربیع النور شریف کے موقع پر چراغاں کے لیے ایک دکان سے لائٹوں کا گچھا خریدا، دکان دار نے بیچتے وقت اس گچھے کو بغیر کھولے اسی طرح چلا کر چیک کروایا، اس طرح دیکھنے میں بظاہر وہ صحیح لگ رہا تھا، زید نے وہ خرید لیا، جب وہ اسے  گھر لے کر آیا اور اسے کھول کر چلایا تو اس میں سے پانچ سے چھ بلب چل نہیں رہے تھے، جو کہ دکان دار کے بغیر کھولے چیک کروانے سے معلوم نہ ہو سکے۔ جب زید نے دکان دار سے اس کے متعلق بات کی تو دکان دار اس بات کو مان گیا کہ پہلے سے یہ چند بلب خراب ہوں گے، جو کہ کھول کر نہ چلانے کے سبب معلوم نہ ہوئے ، اور وہ کہتا ہے کہ بعض اوقات ایسے کلیم آجاتے ہیں، مگر چونکہ ہم بھی جب آگے سے لیتے ہیں تو کھول کے چیک نہیں کرتے بس اسی طرح گچھے کی صورت میں چیک کرتے ہیں اس لئے آگے کسٹمر کو بھی بغیر کھولے چیک کروا دیتے ہیں۔ لہذا اب زید کیا یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اس دکان دار کو وہ گچھا واپس کر دے اور اپنی رقم واپس لے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر دکان دار نے لائٹوں کا گچھا بیچتے وقت ہر عیب سے براءت کا اظہار نہیں کیا تھا تو زید کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لائٹوں کے اس گچھے کو واپس کر دے اور اپنی رقم واپس لے۔

تفصیل یہ ہے کہ قوانینِ شرعیہ کے مطابق اگر خریدی گئی چیز میں ایسا عیب پایا گیا جو عقدِ بیع کے وقت موجود تھا، مگر خریدار کو اُس کا علم نہ ہو ا، اگرچہ اس نے چیز کو دیکھ کر خریدا ہو اور وہ عیب ایسا ہے کہ اُس کی وجہ سے تاجروں کی نظر میں اُس چیز کی قیمت کم ہوجاتی ہے، تو ایسی صورت میں خریدار کو اختیار ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو عقد کو برقرار رکھے اور عیب کو برداشت کرے یا چاہے تو بیع کو فسخ کر تے ہوئے وہ چیز واپس کر کے اپنی رقم واپس لے۔ پوچھی گئی صورت میں اگر چہ زید نے لائٹوں کے گچھے کو چلتے ہوئے دیکھا، لیکن دکان دار کے کھول کر نہ چلانے کے سبب وہ اس میں موجود خراب بلبوں پر مطلع نہیں ہوا، جس کا دکاندار کو بھی اقرار ہے کہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے، اور لائٹوں کی لڑی میں چند بلبوں کا نہ چلنا عیب ہے جو اس کی قیمت کو کم کر دیتا ہے، لہذا زید کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس گچھے کو واپس کر کے، اس کی قیمت واپس لے۔

تنبیہ: اگر دکان دار کو پہلے سے معلوم تھا کہ اس گچھے میں کچھ بلب خراب ہیں، پھر بھی اس نے جان بوجھ کر خریدنے والے  کو بتائے بغیر وہ گچھا بیچا تو وہ گنہگار ہوا، لہذا وہ اسے واپس لینے کے ساتھ توبہ بھی کرے۔

علامہ مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 593ھ/1196ء) لکھتے ہیں:

وإذا اطلع المشتري على عيب في المبيع فهو بالخيار، إن شاء أخذه بجميع الثمن وإن شاء رده

ترجمہ: جب خریدار مبیع میں کسی عیب پر مطلع ہوا تو اسے اختیار ہے، اگر چاہے تو تمام قیمت کے بدلے اسے رکھ لے اور اگر چاہے تو اسے واپس کر دے۔ (الھدایۃ، کتاب البیوع، جلد03، صفحہ 37، دار احياء التراث العربي، بیروت)

فتاوی ہندیہ میں عیب کی تعریف بیان کرتے ہوئےلکھا ہے:

’’كل ما يوجب نقصانا فی الثمن في عادة التجار فهو عيب‘‘

 ترجمہ: ہر وہ چیز جو عادت ِ تجار میں ثمن میں کمی کا سبب ہو، تو وہ عیب ہے۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب البیوع، جلد3، صفحہ72، مطبوعہ کراچی)

 کسی چیز کو فقط دیکھنا خیار عیب کو ساقط نہیں کرتا، بلکہ خریدار  جب اس میں موجود عیب کو جانتے ہوئے اسے خریدے تو خیار عیب ساقط ہوتا ہے، جیسا کہ فتاوی شامی میں اس پر تفصیلاً کلام کرنے کے بعد لکھا ہے:

”قلت: صرح في الذخيرة بأن قبض المبيع مع العلم بالعيب رضا بالعيب، فما في الزيلعي والمجمع لا يخالف ما مر عن الهداية، ؛ لأن ذاك جعل نفس القبض بعد رؤية العيب رضا وما في الزيلعي صادق عليه، ويدل عليه أن الزيلعي قال: والمراد به عيب كان عند البائع وقبضه المشتري من غير أن يعلم به ولم يوجد من المشتري ما يدل على الرضا به بعد العلم بالعيب، فقوله: وقبضه إلخ يدل على أنه لو قبضه عالما بالعيب كان قبضه رضا “

ترجمہ: میں (علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں: ذخیرہ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اگر خریدار عیب کو جانتے ہوئے مال کو قبضے میں لے، تو یہ عیب پر رضا شمار ہوتا ہے۔ پس، زیلعی اور مجمع میں جو باتیں آئی ہیں وہ ہدایہ کے مضمون کے خلاف نہیں، کیونکہ ہدایہ میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ عیب دیکھنے کے بعد مال کا قبضہ رضا شمار ہوتا ہے، اور زیلعی کی بات اسی پر صادق آتی ہے۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ زیلعی نے کہا: اور مراد اس سے وہ عیب ہے جو بائع کے پاس مال میں موجود تھا اور خریدار نے اس حال میں مال قبضے میں لیا کہ اسے اس عیب کا علم نہ تھا اور جب بعد میں اسے علم ہوا تو اس کی طرف سے کوئی ایسی چیز ظاہر نہیں ہوئی جو رضا پر دلالت کرے۔ چنانچہ زیلعی کا یہ قول اور خریدار نے قبضہ کیا، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر وہ عیب کو جانتے ہوئے قبضہ کرے، تو یہ قبضہ رضا کے قائم مقام ہوگا۔ (ردالمحتار علی در مختار، جلد05، صفحہ 05، دار الفکر، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ’’عرف شرع میں عیب جس کی وجہ سے مبیع کو واپس کرسکتے ہیں وہ ہے جس سے تاجر وں کی نظر میں چیز کی قیمت کم ہو جائے۔ خیار عیب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وقت عقد یہ کہہ دے کہ عیب ہوگاتو پھیر دینگے، کہا ہو یا نہ کہاہو، بہر حال عیب معلوم ہونے پر مشتری کو واپس کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ لہٰذا اگر مشتری کو نہ خریدنے سے پہلے عیب پر اطلاع تھی، نہ وقت خریداری اُس کے علم میں یہ بات آئی، بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں عیب ہے، تھوڑا عیب ہو یا زیادہ، خیار عیب حاصل ہے کہ مبیع کو لینا چاہے تو پورے دام پرلے لے، واپس کرنا چاہے واپس کر دے، یہ نہیں ہوسکتا کہ واپس نہ کرے، بلکہ دام کم کر دے۔‘‘ (بھار شریعت، جلد2، حصہ11، صفحہ673، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مبیع میں عیب کو چھپانا گناہ ہے، چنانچہ بہارشریعت میں ہے: ”مبیع میں عیب ہو تو اس کا ظاہر کردینا بائع(بیچنے والے) پر واجب ہے، چھپانا حرام وگناہ ِکبیرہ ہے۔یوہیں ثمن کا عیب مشتری پر ظاہر کر دینا واجب ہے۔   (بھارشریعت، جلد02، صفحہ673، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR-0081

تاریخ اجراء: 18ربیع الاول 1447 ھ/12ستمبر 2520 ء