Supplier Ka Dukandar Ko Paise Dena Ke Kisi Aur Ka Maal Na Rakhe?

 

سپلائیر کا دوکاندار کو اس لئے رقم دینا کہ کسی اور کا مال نہ رکھے؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم بیکری آئٹم (بسکٹ ، کیک وغیرہ )دوکانوں پر جا کر بیچتے ہیں، اور دوکان دار کسی دوسرے کا مال اپنی دوکان پر نہ رکھے بلکہ ہم سے ہی مال خریدے اس لئے دوکان دار کو کچھ رقم دیتے ہیں، کبھی وہ رقم ہمیں واپس مل جاتی ہے اور بعض اوقات رقم واپس نہیں ملتی ، کیا اس مقصد سے دوکان دار کو کچھ رقم دینا شرعاً درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کا دوکان دار کو مذکورہ رقم دینا، ناجائز و حرام ہے۔

   تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ اگر دوکان دار کو رقم دیتے وقت صراحتاً یا دلالتاً کسی بھی طرح طے ہے کہ یہ رقم قابلِ واپسی ہے تو اس صورت میں مذکورہ رقم کی فقہی حیثیت ”قرض“ ہے، اور اس قرض پر شرط ہے کہ دوکان دار دوسری کمپنی کا بیکری آئٹم اپنی دوکان پر نہیں رکھے گا بلکہ صرف آپ سے بیکری آئٹم لیا کرے گا، جو کہ قرض پر مشروط نفع ہے اور ہر وہ قرض جو مشروط نفع لائے، سود اور حرام ہے۔

   اور اگر مذکورہ رقم کا واپس لوٹایا جانا وغیرہ کچھ طے نہیں بلکہ رقم دینے سے صرف اپنا کام نکلوانا مقصود ہے تو یہ رشوت ہے، کیونکہ فقہی اُصولوں کے مطابق اپنا کام بنانے یا اپنا کام نکلوانے کیلئے کسی کو کچھ دینا رشوت ہے، اور یہ بھی حرام ہے۔

   جامع الترمذی میں ہے:”لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الراشی والمرتشی“یعنی: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی۔(ترمذی،1/248-رد المحتار،7/413-فتاوی رضویہ،23/551)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم