
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ نماز جنازہ میں اگر امام صاحب بھول کر پانچویں تکبیر کہہ دیں، تو کیا نماز جنازہ ادا ہو جائے گی یا دوبارہ لوٹانا ہوگی؟
سائل: محمد محمود (جھنگ)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں فرض ہیں، لہٰذا چار ہی کہنی چاہیے، البتہ اگر کسی نے پانچ تکبیریں کہہ دیں، تو نمازِ جنازہ ادا ہو جائے گی، پھر اگر پانچویں تکبیر کہنے والا امام ہو، تو اس صورت میں مقتدی پانچویں تکبیر میں امام کی پیروی نہ کریں، بلکہ امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کریں، جب امام سلام پھیرے، تو مقتدی بھی امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دیں۔
علامہ بُر ہانُ الدین مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 593ھ / 1196ء) لکھتے ہیں:
ثم يكبر الرابعة و يسلم، لأنه صلى اللہ عليه و سلم كبر أربعا في آخر صلاة صلاها، فنسخت ما قبله ولو كبر الإمام خمسا لم يتابعه المؤتم، خلافا لزفر رحمه اللہ لأنه منسوخ لما روينا، و ينتظر تسليمة الإمام في رواية و ھو المختار
ترجمہ: پھر نماز جنازہ میں امام چوتھی تکبیر کہہ کر سلام پھیر دے، کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آخری نمازِ جنازہ کی ادائیگی میں چار تکبیریں کہیں، لہٰذا اس سے پہلے والا طریقہ منسوخ ہو گیا، اور اگر امام پانچویں تکبیر کہہ دے، تو مقتدی اس کی پیروی نہ کرے، بر خلاف امام زفر عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے، کیونکہ یہ منسوخ ہے، جیسا کہ ہم نے روایت بیان کی اور ایک روایت میں مقتدی امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرے گا اور یہی قول مختار ہے۔ (الھدایہ، جلد 1، صفحہ 90، مطبوعہ دار احياء التراث العربی، بيروت)
مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 855ھ/ 1451ء) لکھتےہیں:
في "الذخيرة" لو زاد الإمام خامسة صحت صلاته
ترجمہ: "ذخیرہ" میں ہے کہ اگر امام نمازِ جنازہ میں پانچویں تکبیر کہہ دے، تو بھی نماز جنازہ درست ادا ہوگی۔ (البناية شرح الهداية، جلد 3، صفحہ 221، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
درمختار میں ہے:
(و لو كبر إمامه خمسا لم يتبع) لانه منسوخ (فيمكث المؤتم حتى يسلم معه اذا سلم) به يفتى
ترجمہ: اگر امام نے نمازِ جنازہ میں پانچویں تکبیر کہی، تو اس کی پیروی نہیں کی جائے گی، کیونکہ یہ منسوخ ہو چکا ہے، لہٰذا مقتدی ٹھہرا رہے، یہاں تک کہ جب امام سلام پھیرے، تو مقتدی بھی امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے، اسی پر فتوی ہے۔ (الدر المختار، جلد 3، صفحہ 132- 131، مطبوعہ کوئٹہ)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء) لکھتے ہیں: ”ہمارے علماء کرام حکم فرماتے ہیں کہ امام پانچویں تکبیر کہے، تو مقتدی ہر گز ساتھ نہ دیں خاموش کھڑے رہیں ، یہی صحیح ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 06، صفحہ 396، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہار شریعت میں ہے:”امام نے پانچ تکبیریں کہیں، تو پانچویں تکبیر میں مقتدی امام کی متابعت نہ کرے، بلکہ چُپ کھڑا رہے۔ جب امام سلام پھیرے، تو اُس کے ساتھ سلام پھیر دے۔“ (بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 838، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FSD-9040
تاریخ اجراء: 07 صفر المظفر 1445ھ / 13 اگست 2024ء