
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے وضو کے لیے "Hearing Aid" کو بار بار نکالنا پڑتا ہے۔ اگر"Hearing Aid" کان میں ہوں، تو مشکل ہوتی ہے۔ دو بار یہ آلہ پانی میں بھی گر چکا ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں وضو کے دوران کان پر یہ نہ لگاؤں۔ کیا ایسا کرنے سے میرا وضو ہوجائے گا؟
نوٹ: "Hearing Aid" ایک چھوٹا سا آلہ ہے، جو ثقلِ سماعت کے مریض آواز کو سننے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قوانین شریعت کے مطابق کانوں کا مسح کرتے وقت بھیگی چھنگلیا یعنی دونوں ہاتھوں کی سب سے چھوٹی انگلی تر کر کے کانوں کے سوراخ میں داخِل کرنا مستحب ہے اس لئے اس طریقے سے ہی مسح کرنا بہتر ہے لہٰذا اگر کسی نے اس آلے کو اتارے بغیر کانوں کا مسح نہ کیااور بقیہ سر کا مسح کرلیا تو بغیر کسی کراہت کےاس کاوضو ہوجائے گا کہ ترک مستحب سے وضو میں کسی قسم کی کراہت لازم نہیں آتی۔
وضو کے مستحبات کو بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤ الدین سمرقندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 540ھ / 1145ء) لکھتےہیں:
إدخال الإصبع المبلولة في صماخ الأذنين
یعنی کانوں کا مسح کرتے ہوئے تر انگلی کانوں کے سوراخ میں داخل کرنا۔ (تحفۃ الفقھاء، كتاب الطهارة، جلد 1، صفحہ 15، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 956ھ) لکھتےہیں:
ان یدخل اصبعیہ فی صماخ اذنیہ عند المسح
ترجمہ: مسح کرتے وقت اپنی انگلیاں اپنے دونوں کانوں کے سوراخ میں دا خل کرنا۔ (غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، مطلب فی بعض مایستحب فی الوضو، جلد 1، صفحہ 107، مطبوعہ الجامعۃ الاسلامیۃ)
ترک مستحب سے وضو میں کسی قسم کی کراہت لازم نہیں آتی ،جیساکہ امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ وضو کے بعد منہ پونجھنے کے متعلق ہونے والے سوال کے جواب میں تفصیل کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اقول: و بہ انتفی الاستدلال بوزنہ علی کراھۃ مسحہ کما قال الترمذی فی جامعہ و من کرھہ انما کرھہ من قبل انہ قیل ان الوضو یوزن، فھٰذا الحدیث مع تصریحہ بالوزن نص علی نفی الکراھۃ فان ذلک انما ھواستحباب ومعلوم ان ترک المستحب لا یوجب کراھۃ التنزیہ کما حققہ فی البحر و الشامی و غیرھما
ترجمہ: میں کہتا ہوں: آب وضو کے وزن کئے جانے سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اسے پونچھنا مکروہ ہے جیسا کہ امام ترمذی نے اپنی جامع میں لکھا کہ اس کا م کو جس نے مکروہ کہا ہے اسی وجہ سے مکروہ کہا ہے کہ فرمایا گیا ہے: یہ پانی روزِ قیامت نیکیوں کے پلّے میں رکھا جائے گا۔ مذکورہ بالا حدیثِ ابو ھریرہ سے یہ استدلال رَد ہو جاتا ہے کیوں کہ اس میں وزن کئے جانے کی صراحت کے ساتھ کراہت کی نفی، اور اس کے صرف مستحب ہونے پر نص موجود ہے اور یہ معلوم ہے کہ ترکِ مستحب، کراہتِ تنزیہ کا مُوجب نہیں۔ جیسا کہ محقق بحر اور علامہ شامی وغیرہما نے اس کی تحقیق فرمائی ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 1، صفحہ 316، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FSD-9041
تاریخ اجراء: 13 صفر المظفر1445 ھ/ 19 اگست 2024ء