کیا میرم نام رکھنا جائز ہے؟

 

میرم نام کا معنی اور حکم ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

میرم کا معنی کیا ہے اور یہ نام رکھ سکتے ہیں یا  نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

میرم کے مختلف معنی ہو سکتے ہیں مثلاً کسی چیز کےپھلانے کا آلہ یا دانتوں سے پکڑنے کا آلہ۔  ایک قول کے مطابق میرم اس غار کا نام ہے جس میں اصحابِ کہف آرام کرتے رہے اور ایک قول کے مطابق بیت المعمور کے سامنے ایک دروازے کا نام میرم ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجا گیا۔ اگر ان اچھی نسبتوں کو ملحوظ رکھ کر میرم نام رکھا جائے  ،تو یہ جائز ہوگا۔

تفسیر ماوردی میں ہے :

”وقد روي أن اسم جبل الكهف بناجلوس، واسم الكهف ميرم واسم المدينة أفسوس“

یعنی مروی ہے کہ غار والے پہاڑ کا نام بنا جلوس تھا ، غار کا نام میرم اور شہر کا نام اُفسُوس تھا۔(تفسیر الماوردی، جلد3، صفحہ 287،دارالکتب العلمیۃ، بیروت )

علامہ ابن ضیاء نقل کرتے ہیں :

”وَقيل: أهبط آدم بَين الظّهْر وَالْعصر من بَاب يُقَال لَهُ: الميرم حذاء الْبَيْت الْمَعْمُور“

یعنی ایک قول کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام ظہر اور عصر کے درمیان اس دروازے سے اتارے گئے جس کو میرم کہا جاتا ہے ، یہ بیت المعمور کے محاذی ہے۔(تاریخ مکۃ المشرفۃ لابن الضیاء، صفحہ44، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-2170

تاریخ اجراء:17جمادی الاخریٰ1446ھ/20دسمبر2024ء