غلط تلفظ کے ساتھ اذان دینا ناجائز ہے؟

جس کے تلفظ درست نہ ہوں اس کا اذان دینا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے محلے میں ایک شخص اذان دیتا ہے، لیکن اس سے حروف صحیح ادا نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے وہ حروف بدل دیتا ہے، جیسے ”اشھد ان لا“ کو ”اشھد و لا“ پڑھتا ہے، اسی طرح ”اللّٰہ اکبر“ کو ”اللّٰہ وکبر“ یعنی ”الف“ کی جگہ ”و“ پڑھتا ہے، مزید یہ کہ قریب الصوت الفاظ میں فرق بھی نہیں کر تامثلا ح ھ، ص س، ہمزہ اور ع میں امتیاز نہیں کر پاتا، بلکہ ایک دوسرے سے بدل دیتا ہے، ایسے شخص کا اذان دینا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اِس شخص کا اذان دینا، ناجائز و حرام ہے، کیونکہ سوال میں جن غلطیوں کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، ان کو فقہ کی اصطلاح میں "لحنِ جلی" کہتے ہیں، لحن جلی (بڑی اور ظاہر غلطی) اور کلماتِ اذان میں تبدیلی کے ساتھ اذان دینا، ناجائز و حرام ہے، لہذا اِس شخص کو اذان دینے کی ہرگز اجازت نہیں، لیکن اگر پھر بھی اذان دے، تو وہ اذان نہ ہو گی، اس کو درست تلفظ کے ساتھ لوٹانا ضروری ہوگا اور شخص مذکور نے اس انداز میں جتنی اذانیں دیں، ان سے توبہ کرنا بھی لازم ہے کہ غلط اذان کہنے کی وجہ سے وہ گناہ کا مرتکب ہوا۔

علامہ طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1231ھ/ 1815ء) تلحین کے عدم جواز کی صورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بحيث يؤدی الى تغيير كلمات الاذان و كيفياتها بالحركات و السكنات و نقص بعض حروفها او زيادة فيها فلا يحل فيه

ترجمہ: اس طرح اذان دینا کہ کلماتِ اذان تبدیل ہو جائیں اور کلمات کی حرکات و سکنات میں بھی تبدیلی ہو جائے اور حروف کی کمی زیادتی ہو، یہ جائز نہیں۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 198، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

کلمات اذان میں لحن حرام ہے، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ”کلمات اذان میں لحن (جلی)حرام ہے، مثلاً

اﷲ يا اکبر

کے ہمزے کو مد کے ساتھ

آللّٰہ یا آکبر

پڑھنا، یوہیں اکبر میں بے کے بعد الف بڑھانا حرام ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 468، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

جو مؤذن غلط اذان کہے، وہ گناہ گار ہے، اس کی اذان کا اعادہ کیا جائے، جیسا کہ مفتی عبد المنان اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ایسی اذان و اقامت کے بارے میں سوال ہوا جس میں

اشھد، کو اسھد،

محمد کو مھمد،

حی  کو ھی،

الفلاح  کو الفلا

اور قد قامت  کو کد کامت

وغیرہ کہا گیا اس کے جواب میں فرماتے ہیں: سائل نے اپنی تحریر میں اذان کی جن غلطیوں کی نشان دہی کی ہے ان میں بعض کو فقہ کی اصطلاح میں لحن کہتے ہیں، ایسی اذان کا جواب نہ دیا جائے بلکہ سنا بھی نہ جائے ایسی اذان کہنا حرام ہے، بعض صورتوں میں جب اذان مکروہ ہو تو اعادہ کا حکم ہے، تو جب اذان صحیح ہی نہیں ہوئی تو ضرور لوٹانا چاہیے۔۔۔اذان غلط کہنے کا گناہ الگ ہوگا۔“ (فتاوی بحر العلوم، جلد 1، صفحہ 153- 154، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9034

تاریخ اجراء: 04 صفر المظفر 1446 ھ / 10 اگست 2024 ء