
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازی کا سلام پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے اور چہرہ پھیرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ امام صاحب کو سلام پھیر کر کس طرف رخ کر کے بیٹھنا چاہیے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نماز کے اختتام پر دو مرتبہ لفظ "السلام" کہنا واجب ہے اور اس کے ساتھ "علیکم ورحمۃ اللہ" کہنا اور دائیں وبائیں جانب چہرہ پھیرنا سنت ہے اورسلام پھیرنے کے بعد سنت یہ ہے کہ امام قبلہ سے دائیں ،بائیں منہ کرکے بیٹھے یا مقتدیوں کی طرف رخ کرکے بیٹھے،جبکہ پیچھے محاذات میں (یعنی امام کے بالکل سامنے)کوئی نماز میں مشغول نہ ہو، البتہ ان میں سے افضل طریقہ دائیں جانب رخ کرکے بیٹھنا ہے۔
نماز کے اختتام پر لفظ ”سلام“ کہنے کے واجب ہونے کے متعلق جامع ترمذی میں ہے :
”عن علي رضی اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: مفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير و تحليلها التسليم“
ترجمہ: حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: طہارت نماز کی چابی ہے اور اس کی تحریم (منافی نماز کو حرام کرنے والی چیز ) تکبیر ہے اور اس کی تحلیل (مذکورہ امور کو حلال کرنے والا عمل ) سلام ہے۔ (سنن الترمذی ، جلد 1، باب ما جاء أن مفتاح الصلاة الطهور، صفحہ54،مطبوعہ بیروت )
حدیث پاک کے ان الفاظ(وتحليلها التسليم) کے تحت علامہ علی قاری حنفی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
”التحلیل جعل الشیء المحرم حلالا وسمی التسلیم بہ لتحلیل ما کان حراما علی المصلی لخروجہ عن الصلاۃ وھو واجب“
ترجمہ: جو چیزیں (نماز) میں حرام کرد ی گئیں ان کو حلال کردینا اور اس کو تسلیم کانام دیا گیا،کیونکہ اس کے ذریعے نماز سے خارج ہوتے ہی نمازی پر جو چیزیں حرام ہوتی ہیں، وہ حلال ہوجاتی ہیں اور سلام واجب ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، جلد 2 ، صفحہ 34، مطبوعہ کوئٹہ)
لفظ” سلام “کے وجوب کے متعلق مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر، مراقی الفلاح مع نور الایضاح اور تنویر الابصار مع در مختار میں ہے :
واللفظ للآخر: ”( ولھا واجبات) ۔۔۔(ولفظ السلام) مرتين، فالثاني واجب على الاصح دون عليكم“
ترجمہ: واجبات نماز ( میں سے ایک یہ ہے کہ ) لفظ "سلام" دو مرتبہ کہنا واجب ہے اور دوسرا سلام بھی اصح قول کے مطابق واجب ہے، لفظ "علیکم" کہنا واجب نہیں۔(تنویر الابصار مع در مختار ، جلد 2، کتاب الصلاۃ، صفحه 199، مطبوعہ کوئٹہ)
سلام کے ساتھ دائیں اور بائیں جانب چہرہ پھیرنے سے متعلق سنن نسائی، سننِ ابو داؤداور سنن ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:
واللفظ للاول: ”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یسلم عن یمینہ :السلام علیکم ورحمۃ اللہ حتی یری بیاض خدہ الایمن وعن یسارہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ حتی یری بیاض خدہ الایسر“
ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی دائیں جانب یوں سلام پھیرتے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، حتی کہ آپ کے دائیں رخسار کی سفیدی نظر آتی اور اپنی بائیں جانب منہ پھیر کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے، حتی کہ آپ کے بائیں رخسار کی سفیدی نظر آتی۔ (سنن النسائی، ج 1، کتاب السھو، باب کیف السلام علی الشمال، صفحہ 285، مطبوعہ الریاض)
سنن الترمذی میں ہے:
”عن عبد اللہ رضی اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنه كان يسلم عن يمينه وعن يساره السلام عليكم ورحمة اللہ، السلام عليكم ورحمة اللہ“
ترجمہ: حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے، تو کہتے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔(سنن الترمذی، جلد1،أبواب الصلاة، باب ما جاء في التسليم في الصلاة، صفحہ 326، مطبوعہ بیروت)
بحر الرائق ومجمع الانہر میں ہے :
واللفظ للآخر: ”أن الالتفات يمينا ويسارا غير واجب بل هو سنة“
ترجمہ: (سلام میں)دائیں و بائیں جانب التفات کرنا واجب نہیں، بلکہ سنت ہے۔ (مجمع الانھر، جلد 1، باب صفة الصلاة، سنن الصلاة، صفحہ 89، مطبوعه تركيا)
مقتدیوں کی طرف چہرہ کرنے کے متعلق صحیح بخاری میں ہے:
”كان النبي صلى اللہ عليه وسلم إذا صلى صلاة، أقبل علينا بوجهه“
ترجمہ: جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں نماز پڑھا چکے ہوتے، تو ہماری جانب رُخ کر لیتے۔(صحیح البخاری، جلد1، باب یستقبل الامام الناس، صفحہ 168، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)
دائیں طرف سلام پھیرنےکے متعلق صحیح مسلم میں ہے:
”عن السدی، قال: سألت انسا كيف أنصرف إذا صليت؟ عن يميني أو يساری؟ قال: أما أنا فأكثر ما رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ينصرف عن يمينه“
ترجمہ:حضرت سُدِّی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، آپ بتاتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے سوال کیا کہ جب نماز مکمل ہو، تو دائیں یا بائیں، کس طرف پِھروں؟ توجواب دیا:میں نے اللہ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اکثر دائیں جانب پِھرتے دیکھا ہے۔(صحیح المسلم، جلد1 ، باب جواز الاِنْصِراف من الصلاۃ، صفحه 492،مطبوعه دار احیاء التراث العربی، بیروت)
بائیں طرف سلام پھیرنے کے متعلق صحیح بخاری میں ہے:
”قال عبد اللہ: لا يجعل أحدكم للشيطان شيئا من صلاته، يرى أن حقا عليه أن لا ينصرف إلا عن يمينه، لقد رأيت النبي صلى اللہ عليه وسلم كثيرا ينصرف عن يساره“
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی بھی اپنی نماز میں شیطان کو حصہ نہ بنائے، یعنی نمازی یہ یقین کر لے کہ دائیں جانب ہی پھِرنا ہے، کیونکہ میں نے بکثرت نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بائیں جانب رُخ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔(صحیح البخاری، جلد1، باب الانفتال والاِنْصِراف، صفحہ 170، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)
اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں: ’’بعدِ سلام (امام کا )قبلہ رو بیٹھا رہنا ہر نماز میں مکروہ ہے، شمال و جنوب و مشرق میں مختار ہے، مگر جب کوئی مسبوق اس کے محاذات میں اگرچہ اخیر صف میں نماز پڑھ رہا ہو، تو مشرق کو یعنی جانبِ مقتدیان منہ نہ کرے، بہر حال پھرنا مطلوب ہے، اگر نہ پھرا اور قبلہ رو بیٹھا رہا، تو مبتلائے کراہت و تارک سنت ہوگا۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ205، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
دائیں جانب رخ کرنے کے افضل ہونے کے متعلق مراقی الفلاح مع نور الایضاح میں ہے :
” إن شاء الإمام انحرف عن يساره وجعل القبلة عن يمينه وإن شاء انحرف عن يمينه وجعل القبلة عن يساره وهذا أولى“
ترجمہ: اگر امام چاہے، تو بائیں جانب اپنا رخ کر لے اور اس وقت قبلہ اس کی دائیں جانب ہوگا اور اگر امام چاہے، تو اپنا رخ دائیں جانب کر لے اور اس صورت میں قبلہ امام کی بائیں جانب ہوگا اور یہ صورت اولیٰ ہے۔ (مراقی الفلاح مع نور الایضاح ،صفحہ 196،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : عبدالرب شاکر عطاری مدنی
مصدق: مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar- 9056
تاریخ اجراء: 17صفر المظفر1446 ھ/23اگست2024ء